021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مؤذن کو سالانہ چھٹیوں کا وظیفہ دینا
77036وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

ایک شخص مسجد کا مؤذن ہے،اس نے مسجد کے امام صاحب سے سالانہ پندرہ دن کی مطلقا ًچھٹیوں کی بات کی،جس کا وظیفہ نہ کاٹا جائے تو اس پر امام صاحب نے جواب دیا کہ غیر ضروری چھٹی پر اگر میں تنخواہ نہیں کاٹوں گا،بلکہ اس  کی بھی تنخواہ دوں گا تو قیامت کے دن میری پکڑ ہوگی،آپ سے گزارش ہے کہ راہنمائی فرمادیں کہ اس پر واقعی مسجد کے امام صاحب یعنی متولی کی پکڑ ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس حوالے سے شریعت نے فریقین کو اختیار دیا ہے کہ مسجد کی انتظامیہ مؤذن سے اس حوالے سے طے کرلے کہ اسے سالانہ اتنے دن کی چھٹیوں کی اجازت ہوگی جن کی وجہ سے اس کا وظیفہ نہیں کاٹا جائے گا،لہذا اگر امام صاحب مؤذن کو سالانہ پندرہ دن کی باوظیفہ چھٹی دیں گے تو اس پر ان کی پکڑ نہیں ہوگی،بلکہ اپنے ماتحت لوگوں سے حسن سلوک اور ان ضروریات کا خیال رکھنے کا جو شرعی حکم ہے اس پر عمل کی وجہ سے ثواب ملے گا۔

نیز یہ بھی مد نظر رہے کہ جس طرح دیگر لوگوں کی ضروریات ہوتی ہیں،اسی طرح  ایک مسجد کے مؤذن  اور خادم کی بھی ضروریات ہوتی ہیں،جس کے لئے بسا اوقات چھٹیاں ناگزیر ہوتی ہیں،اگر کوئی بڑی ضرورت نہ بھی ہو تو سال میں چند دن آرام کے لئے چھٹی کرنا انسان کی طبعی ضرورت ہے،اس لئےمعاہدہ کرتے وقت امام صاحب کو اس بات کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے اور عام طور پر دیگر اداروں میں ملازمین کو سالانہ جتنی چھٹیوں کی اجازت ہوتی ہے کم وبیش اتنی رعایت مؤذن کو بھی دینی چاہیے۔

حوالہ جات
"الأشباه والنظائر لابن نجيم "(ص: 82):
"نقل في القنية أن الإمام للمسجد يسامح في كل شهر أسبوعا للاستراحة أو لزيارة أهله.
وعبارته في باب الإمامة: يترك الإمامة لزيارة أقربائه في الرساتيق أسبوعا، أو نحوه أو لمصيبته أو لاستراحته لا بأس به،ومثله عفو في العادة والشرع (انتهى) ".
"الدر المختار " (4/ 372):
"وهل يأخذ أيام البطالة كعيد ورمضان لم أره وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي. واختلفوا فيها والأصح أنه يأخذ؛ لأنها للاستراحة أشباه من قاعدة العادة محكمة".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ :" مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظيفة في يوم البطالة (قوله: وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي إلخ) قال في الأشباه وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب له في بيت المال في يوم بطالته، فقال في المحيط: إنه يأخذ لأنه يستريح لليوم الثاني وقيل لا. اهـ. وفي المنية القاضي يستحق الكفاية من بيت المال في يوم البطالة في الأصح، وفي الوهبانية أنه أظهر فينبغي أن يكون كذلك في المدرس؛ لأن يوم البطالة للاستراحة، وفي الحقيقة تكون للمطالعة والتحرير عند ذوي الهمة، ولكن تعارف الفقهاء في زماننا بطالة طويلة أدت إلى أن صار الغالب البطالة، وأيام التدريس قليلة اهـ.
 ورده البيري بما في القنية إن كان الواقف قدر للدرس لكل يوم مبلغا فلم يدرس يوم الجمعة أو الثلاثاء لا يحل له أن يأخذ ويصرف أجر هذين اليومين إلى مصارف المدرسة من المرمة وغيرها بخلاف ما إذا لم يقدر لكل يوم مبلغا، فإنه يحل له الأخذ وإن لم يدرس فيهما للعرف، بخلاف غيرهما من أيام الأسبوع حيث لا يحل له أخذ الأجر عن يوم لم يدرس فيه مطلقا سواء قدر له أجر كل يوم أو لا. اهـ. ط قلت: هذا ظاهر فيما إذا قدر لكل يوم درس فيه مبلغا أما لو قال يعطى المدرس كل يوم كذا فينبغي أن يعطى ليوم البطالة المتعارفة بقرينة ما ذكره في مقابله من البناء على العرف، فحيث كانت البطالة معروفة في يوم الثلاثاء والجمعة وفي رمضان والعيدين يحل الأخذ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

02/ذی قعدہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب