021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں جائیداد کیسے تقسیم کی جائے؟
77030ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

ایک شخص جو کہ دس سے بارہ کروڑ روپے مالیت (گاڑی، فیکٹری میں موجود مشینری وغیرہ اور بشمول گھر) کا مالک ہے، اس کی خواہش ہے کہ اپنے مرنے سے پہلے ہی مذکورہ مال میں سے کچھ رقم دینی کام میں خرچ کرے،کچھ اپنے رشتہ دار اعزہ واقارب پر خرچ کرے اور باقی مال اپنے وارثین (ایک بیٹا، دو بیٹی اور اہلیہ) میں بطور میراث تقسیم کردے، تاکہ مرنے کے بعد میراث کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی بدنظمی نہ ہو، اب سوال یہ ہے کہ از روئے شریعت:

① دینی کاموں کےلئے مذکورہ بالا مالیت میں سے کتنا حصہ مختص کرے؟

② رشتے دار اور اعزہ واقارب کو کتنا حصہ دے سکتا ہے؟

③ وارثین دو بیٹی، ایک بیٹا اور ایک اہلیہ کو بطور میراث بالترتیب کتنا کتنا حصہ دیا جائے گا؟

ایک شخص جو کہ دس سے بارہ کروڑ روپے مالیت (گاڑی، فیکٹری میں موجود مشینری وغیرہ اور بشمول گھر) کا مالک ہے، اس کی خواہش ہے کہ اپنے مرنے سے پہلے ہی مذکورہ مال میں سے کچھ رقم دینی کام میں خرچ کرے،کچھ اپنے رشتہ دار اعزہ واقارب پر خرچ کرے اور باقی مال اپنے وارثین (ایک بیٹا، دو بیٹی اور اہلیہ) میں بطور میراث تقسیم کردے، تاکہ مرنے کے بعد میراث کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی بدنظمی نہ ہو، اب سوال یہ ہے کہ از روئے شریعت:

① دینی کاموں کےلئے مذکورہ بالا مالیت میں سے کتنا حصہ مختص کرے؟

② رشتے دار اور اعزہ واقارب کو کتنا حصہ دے سکتا ہے؟

③ وارثین دو بیٹی، ایک بیٹا اور ایک اہلیہ کو بطور میراث بالترتیب کتنا کتنا حصہ دیا جائے گا؟

ایک شخص جو کہ دس سے بارہ کروڑ روپے مالیت (گاڑی، فیکٹری میں موجود مشینری وغیرہ اور بشمول گھر) کا مالک ہے، اس کی خواہش ہے کہ اپنے مرنے سے پہلے ہی مذکورہ مال میں سے کچھ رقم دینی کام میں خرچ کرے،کچھ اپنے رشتہ دار اعزہ واقارب پر خرچ کرے اور باقی مال اپنے وارثین (ایک بیٹا، دو بیٹی اور اہلیہ) میں بطور میراث تقسیم کردے، تاکہ مرنے کے بعد میراث کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی بدنظمی نہ ہو، اب سوال یہ ہے کہ از روئے شریعت:

① دینی کاموں کےلئے مذکورہ بالا مالیت میں سے کتنا حصہ مختص کرے؟

② رشتے دار اور اعزہ واقارب کو کتنا حصہ دے سکتا ہے؟

③ وارثین دو بیٹی، ایک بیٹا اور ایک اہلیہ کو بطور میراث بالترتیب کتنا کتنا حصہ دیا جائے گا؟

ایک شخص جو کہ دس سے بارہ کروڑ روپے مالیت (گاڑی، فیکٹری میں موجود مشینری وغیرہ اور بشمول گھر) کا مالک ہے، اس کی خواہش ہے کہ اپنے مرنے سے پہلے ہی مذکورہ مال میں سے کچھ رقم دینی کام میں خرچ کرے،کچھ اپنے رشتہ دار اعزہ واقارب پر خرچ کرے اور باقی مال اپنے وارثین (ایک بیٹا، دو بیٹی اور اہلیہ) میں بطور میراث تقسیم کردے، تاکہ مرنے کے بعد میراث کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی بدنظمی نہ ہو، اب سوال یہ ہے کہ از روئے شریعت:

① دینی کاموں کےلئے مذکورہ بالا مالیت میں سے کتنا حصہ مختص کرے؟

② رشتے دار اور اعزہ واقارب کو کتنا حصہ دے سکتا ہے؟

③ وارثین دو بیٹی، ایک بیٹا اور ایک اہلیہ کو بطور میراث بالترتیب کتنا کتنا حصہ دیا جائے گا؟

ایک شخص جو کہ دس سے بارہ کروڑ روپے مالیت (گاڑی، فیکٹری میں موجود مشینری وغیرہ اور بشمول گھر) کا مالک ہے، اس کی خواہش ہے کہ اپنے مرنے سے پہلے ہی مذکورہ مال میں سے کچھ رقم دینی کام میں خرچ کرے،کچھ اپنے رشتہ دار اعزہ واقارب پر خرچ کرے اور باقی مال اپنے وارثین (ایک بیٹا، دو بیٹی اور اہلیہ) میں بطور میراث تقسیم کردے، تاکہ مرنے کے بعد میراث کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی بدنظمی نہ ہو، اب سوال یہ ہے کہ از روئے شریعت:

① دینی کاموں کےلئے مذکورہ بالا مالیت میں سے کتنا حصہ مختص کرے؟

② رشتے دار اور اعزہ واقارب کو کتنا حصہ دے سکتا ہے؟

③ وارثین دو بیٹی، ایک بیٹا اور ایک اہلیہ کو بطور میراث بالترتیب کتنا کتنا حصہ دیا جائے گا؟

ایک شخص جو کہ دس سے بارہ کروڑ روپے مالیت (گاڑی، فیکٹری میں موجود مشینری وغیرہ اور بشمول گھر) کا مالک ہے، اس کی خواہش ہے کہ اپنے مرنے سے پہلے ہی مذکورہ مال میں سے کچھ رقم دینی کام میں خرچ کرے،کچھ اپنے رشتہ دار اعزہ واقارب پر خرچ کرے اور باقی مال اپنے وارثین (ایک بیٹا، دو بیٹی اور اہلیہ) میں بطور میراث تقسیم کردے، تاکہ مرنے کے بعد میراث کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی بدنظمی نہ ہو، اب سوال یہ ہے کہ از روئے شریعت:

① دینی کاموں کےلئے مذکورہ بالا مالیت میں سے کتنا حصہ مختص کرے؟

② رشتے دار اور اعزہ واقارب کو کتنا حصہ دے سکتا ہے؟

③ وارثین دو بیٹی، ایک بیٹا اور ایک اہلیہ کو بطور میراث بالترتیب کتنا کتنا حصہ دیا جائے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اپنے مال کا تہائی حصہ آپ دینی کاموں اور عزیز و اقارب کی امداد میں خود بھی صرف کرسکتے ہیں اور اس کی وصیت بھی کرسکتے ہیں،اس سے زیادہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے،چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں میری عیادت کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ میں اپنے کل مال کی وصیت کرنا چاہتا ہوں،آپ نے منع فرمادیا،پھر میں نے آدھے مال کا پوچھا تو آپ نے اس سے بھی منع فرمادیا،پھر تہائی کی اجازت چاہی تو آپ علیہ السلام نے اس کی اجازت دی اور فرمایا کہ یہ بھی بہت ہے اورمزیدفرمایا کہ تم اپنے ورثہ کو خوشحال چھوڑ کر جاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں،جبکہ اس وقت حضرت سعد کی صرف ایک بیٹی تھی،لیکن اس کے باوجود آپ نے انہیں تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کی اجازت نہیں دی۔

بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ تہائی مال سے بھی کچھ کم کو مذکورہ کاموں کے لئے مختص کیا جائے،کیونکہ تہائی کے بارے میں بھی حضور نے فرمایا کہ یہ بھی بہت ہے۔

جبکہ تہائی کے علاوہ مال میں سے آپ بیوی کو آٹھواں حصہ یا اس کی ضرورت کے مطابق کچھ کم وبیش  دے کر بقیہ مال کو بیٹوں اور بیٹیوں میں برابر تقسیم کردیں،بغیر کسی معقول وجہ کے کمی بیشی نہ کریں،کیونکہ مرنے سے پہلے اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرنا ہبہ کے حکم میں ہےاورعام حالات میں اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری مستحب ہے ،یعنی سب کو چاہے لڑکا ہو یا لڑکی برابر حصہ دیا جائے،یا اگر چاہے تو بیٹےکو بیٹیوں سے دوگنا حصہ بھی دے سکتا ہے،لیکن معقول وجہ ترجیح کے بغیر اس سے زیادہ فرق کرنا جائز نہیں،البتہ معقول وجہ مثلا بعض اولاد کے زیادہ احتیاج،فرماں برداری یا نیکی و تقوی کی بناء پر مزید کمی بیشی بھی کی جاسکتی ہے۔ (احسن الفتاوی:9/310)

واضح رہے کہ چونکہ زندگی میں جائیداد کی تقسیم ہبہ ہے،اس لیے اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ اولاد میں سے جس کو جو مال دیاجائے وہ اس کے نام کرکے باقاعدہ اس کے قبضے میں بھی دےدیاجائے،کیونکہ اگر صرف نام کروایا اور قبضہ نہیں دیا تو ایسا ہبہ پورانہیں ہوگا اور والد کے انتقال کے بعد ایسا مال بھی میراث کا حصہ بن کر سب ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

حوالہ جات
"صحيح البخاري" (4/ 3):
 "عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه، قال: جاء النبي صلىﷲ عليه وسلم يعودني وأنا بمكة، وهو يكره أن يموت بالأرض التي هاجر منها، قال: «يرحم ﷲ ابن عفراء»، قلت: يا رسول ﷲ، أوصي بمالي كله؟ قال: «لا»، قلت: فالشطر، قال: «لا»، قلت: الثلث، قال: «فالثلث، والثلث كثير، إنك أن تدع ورثتك أغنياء خير من أن تدعهم عالة يتكففون الناس في أيديهم، وإنك مهما أنفقت من نفقة، فإنها صدقة، حتى اللقمة التي ترفعها إلى في امرأتك، وعسى ﷲ أن يرفعك، فينتفع بك ناس ويضر بك آخرون»، ولم يكن له يومئذ إلا ابنة".
"شرح صحيح البخارى لابن بطال "(8/ 144):
"وأجمع العلماء على القول به واختلفوا فى القدر الذى يستحب أن يوصى به الميت، وسيأتى بعد هذا، إلا أن الأفضل لمن له ورثة أن يقصر فى وصيته عن الثلث غنيا كان أو فقيرًا؛ لأن رسولﷲ (صلى ﷲ عليه وسلم) لما قال لسعد: (الثلث كثير) أتبع ذلك بقوله: (إنك إن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تدعهم عالة يتكففون الناس) ولم يكن لسعد إلا ابنة واحدة كما ذكر فى هذا الحديث، فدل هذا أن ترك المال للورثة خير من الصدقة به".
"البحر الرائق "(ج 20 / ص 110):
"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله لواحد جاز قضاء وهو آثم كذا في المحيط".
"البزازیہ علی ھامش الہندیۃ"(6/237):
"الافضل فی ھبۃ الابن والبنت التثلیث کالمیراث وعند الثانی التنصیف وھوالمختار،ولو وھب  جمیع  مالہ من ابنہ جاز ،و ھو آثم ، نص علیہ محمد ،ولو خص بعض اولادہ لزیادۃ رشدہ لاباس بہ ،وان کانا سواءلایفعلہ".
"الدر المختار للحصفكي ": (ج 5 / ص 265) :
وفي الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الاولاد في المحبة لانها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الاضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

02/ذی قعدہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب