021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جائیداد کی تقسیم
77002میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

محترم مفتی صاحب!

درج ذیل معاملات میں جائیداد کی تقسیم شرعی طریقے پر کیسے ہوگی؟

جائیداد کی تفصیل:

متوفی زید کے ورثہ: ایک بیوہ،تین بیٹے ، اور ایک بیٹی۔

جائیداد نمبر 1: ایک عدد مکان( گراؤنڈ پر کمرشل دکانیں، پہلی اور دوسری منزل رہائشی ہے)

مکان بڑے بیٹے کے نام پر رجسٹرڈ ہےجبکہ تمام ورثہ پہلے اور اب بھی اس بات پر متفق  ہیں کہ اس مکان کی تقسیم شرعی طریقے سے ہونی ہے، اب بڑے بیٹے کا بھی انتقال ہوچکا ہے ان کی ایک بیوہ اور تین بیٹیاں ہیں۔

جائیداد نمبر 2: ایک عدد رہائشی پلاٹ( اس کی رجسٹری متوفی زید کی بیوہ کے نام پر ہے) اس پلاٹ کو بڑے بیٹے نے اپنی زندگی میں تقریبا 20 لاکھ روپے کی لاگت سے تعمیر کرایا اور بہن کو رہائش کیلئے دے دیا، بہن شادی شدہ ہے، ان کے اور ان کے شوہر کے درمیان کافی سالوں سے ناراضگی ہے، مکان کے دو فلور کرائے پر دیئے ہیں، ان کا کرایہ بہن ہی لیتی ہے اور ساتھ میں  والدہ بھی ان کی مدد کرتی رہتی ہے۔

متوفی زید کے انتقال کے بعد اب تمام ورثہ باہمی رضامندی سے رہائشی حصوں میں رہ رہے ہیں جبکہ گراؤنڈ فلور کے دکانوں کے کرائے بھی باہمی رضامندی سے تقسیم کرلیتے ہیں۔

اب سب یہ چاہتے ہیں کہ جائیداد تقسیم کردی جائے اور اسے قانونی شکل دے دی جائےتاکہ باہمی خلفشار پیدا نہ ہو، جائیداد فروخت بھی نہیں کرنا چاہتے۔

خدشہ ہے کہ:

1۔ مکان چونکہ مرحوم بڑے بیٹے کے نام پر رجسٹرڈہے تو  ان کے ورثاء آئندہ مسائل پیدا نہ کریں، ابھی تک وہ شرعی تقسیم پر راضی ہیں مگر مرحوم بیٹے کی بیوہ جائیداد نمبر 2 کی تعمیر پر اپنے شوہر کی 20 لاکھ روپے لاگت کی واپسی کا تقاضا کرتی ہیں۔

2۔متوفی زید کی بیوہ کے نام پر جائیداد نمبر 2 رجسٹرڈ ہے یعنی وہ ان کی ملکیت ہے، تو وہ یہ جائیداد تن تنہا بیٹی کے نام ٹرانسفر نہ کردیں۔

برائے مہربانی تفصیل سے وضاحت کردیں کہ جائیداد نمبر 1 اور جائیداد نمبر 2 کی تقسیم ورثہ میں شرعا کسطرح ممکن ہوگی جبکہ دونوں جائیدادیں مروجہ عدالتی قانون کے مطابق نمبر 1 بڑے بیٹے کے نام رجسٹرڈ ہے اور نمبر 2 متوفی زید کی بیوہ کے نام رجسٹرڈ ہے، البتہ اس معاملے میں فریقین شرعی تقسیم پر راضی ہیں۔

تلخیص سوال:

درج بالا تفصیل میں تین سوالات کا حکم مطلوب ہے:

 1۔زید کے انتقال کے بعد بڑے بیٹے کے مکان کی تعمیر کی شرعی حیثیت۔

2۔زید (میت اول) کے ورثہ کے درمیان جائیداد کی تقسیم۔

3۔ بڑے بیٹے (میت ثانی) کے ورثہ کے درمیان جائیداد کی تقسیم۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔بڑے بیٹے کے مکان کی تعمیر کی شرعی حیثیت:

اگر بڑے بیٹے نے جائیداد نمبر 2 میں تعمیراتی کام دیگر ورثاء کی اجازت سے کروایا ہے تو اس کی اہلیہ کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ  اپنے شوہر کے حصے کو منہا کرکے زید کے دیگر  ورثہ سے ان کے حصص کے مطابق مکان کی تعمیر کے مد میں کئے گئے اخراجات کا مطالبہ کرے،اور اگر اس نے تعمیراتی کام اپنی مرضی سے دیگر ورثاء کے اجازت کے بغیر کروایا ہے تو اس صورت میں ان کی اہلیہ تعمیرات کی لاگت کا مطالبہ نہیں کرسکتی ۔

2۔زید (میت اول) کے ورثہ کے درمیان جائیداد کی تقسیم کا طریقہ کار۔

مرحوم زید کے انتقال کے وقت ایک بیوہ،تین بیٹے ، اور ایک بیٹی موجود تھے ،بعد میں ان کے ایک بیٹے کا انتقال ہوا، لہذا دونوں میتوں کے ورثاء میں مکان حسب ذیل تقسیم ہوگا: 

سب سے پہلےمرحوم زید کی کل جائیدادکوآٹھ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا،جن میں سے ایک حصہ ان کی اہلیہ کو، دو دو حصے ان کے ہر بیٹے کو اور ایک حصہ ان کی بیٹی کو دیا جائے گا۔

فیصدی اعتبار سے تقسیم یوں ہوگی کہ مرحوم زید کے مکان سے ان کی بیوی کو 12.5%فیصد،ان کے ہر بیٹے کو ٪25 فیصد دیا جائے گا اور ان کی بیٹی کو 12.5%فیصد دیا جائے۔

3۔ بڑے بیٹے (میت ثانی) کے ورثہ کے درمیان جائیداد کی تقسیم کا طریقہ کار۔

اس کے بعد جس بڑے بیٹے کا انتقال والد صاحب کے انتقال کے بعد ہوا ہے، ان کو اپنے والد صاحب سے ملنے والا حصہ اور ان کی اپنی ذاتی جائیداد کو 360 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے ان کی بیوہ کو 45 حصے، ان کی ہر بیٹی کو 80 حصے، ان کی والدہ کو 60 حصے، ہر بھائی کو چھ حصے، اور بہن کو 3 حصے دیئے جائیں گے۔

فیصدی اعتبار سے تقسیم یوں ہوگی کہ بڑے بیٹے کی اہلیہ کو 12.5%، والدہ کو 16.6666%، ہر بیٹی کو 22.2222%، ہر بھائی کو1.6667%اور ہر بہن کو0.8333%دیئے جائیں گے۔

جائیداد کی تقسیم کی سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ جائیداد فروخت کرکے اس کی قیمت کو تمام ورثاء پر ان کے حصص کے تناسب سے تقسیم کیا جائے تاہم اگر ورثہ جائیداد کو فروخت کئے بغیر ترکہ کی تقسیم کے خواہشمند ہیں، تو اس کی درج ذیل دو صورتیں ہوسکتی ہیں:

پہلی صورت یہ ہے کہ جائیداد کی تقسیم کیلئے گورنمنٹ کی طرف رجوع کرکے پٹواری کی مدد سے دونوں مکان اوپر ذکر کردہ حصص کے مطابق تقسیم کئے جائیں،ہر وارث کو اس کا حصہ دیا جائے، اور مرحوم بھائی کا حصہ ان کے ورثہ کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔

پھر جس شخص کا حصہ نسبتا دوسرے شخص کے حصے سے زیادہ ہو تو وہ اپنی مرضی کے مطابق چاہے تو الگ سے تن تنہا اپنے حصے میں رہائش اختیار کرے یا کسی دوسرے شخص کو اپنے ساتھ مکان کے کچھ حصے میں رہائش دیکر اس سے اسی کے بقدر کرایہ وصول کرے۔

دوسری صورت یہ ہے زید کے بڑے بیٹے(میت ثانی) کے حصے کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق ان کے اہل واولاد کی اجازت سے زید کے تمام ورثاء خرید لیں، اور اپنے حصص کے مطابق اس کی قیمت ادا کریں پھر تمام جائیداد کو آپس میں تقسیم کرلیں۔

باقی آپ نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے کہ جس کے نام پر مکان رجسٹرڈ ہے وہ آگے کسی اور کے نام ٹرانسفر نہ کردے، اس حوالے سے یہ بات پیش نظر رہے کہ محض رجسٹری شرعا ملکیت کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ شریعت کی نظر میں کسی شیء کے مالک ہونے کیلئے جن اسباب کا ہونا ضروری ہے وہ اسباب پائے جائیں، چونکہ ہمارے ہاں بعض مرتبہ رجسٹری قانونی مصالح کی جاتی ہے اور اس میں ملکیت کی منتقلی کے اسباب اور شرائط مکمل طور پر نہیں پائی جاتی ہیں، اس لئے صورت مسؤلہ میں اگر دونوں جائیدادیں بڑے بیٹے اور بیوہ کے نام گفٹ کرکے رجسٹرڈ کی گئی ہیں تو اس میں یہ ضروری ہے کہ رجسٹر کرتے وقت وہ جائیداد مکمل طور پر مذکورہ اشخاص کے قبضے میں ہوں اور گفٹ کرنے والے کا اس میں بالکل عمل دخل نہ ہولیکن اگر ایسا نہیں ہوا ہے تو وہ دونوں جائیدادیں بدستور اصل مالک کی ملکیت شمار ہوں گی اور ان کے ورثہ کو ان میں برابر حصہ ملے گا۔

حوالہ جات
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 313)
المادة (1309) - (إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك بإذن الآخروصرف من ماله قدرا معروفا فله الرجوع على شريكه بحصته أي أن يأخذ من شريكه مقدار ما أصاب حصته من المصرف) إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك ففي ذلك احتمالات أربعة:
الاحتمال الأول - أن يكون المعمر صرف بإذن وأمر الشريك الآخر من ماله قدرا معروفا وعمر الملك المشترك للشركة أو أنشأه مجددا فيكون قسم من التعميرات الواقعة أو البناء ملكا للشريك الآمر ولو لم يشترط الشريك الآمر الرجوع على نفسه بالمصرف بقوله: اصرف وأنا أدفع لك حصتي من المصرف.
وللشريك المأمور الذي عمر الرجوع على شريكه بحصته أي بقدر ما أصاب حصته من المصرف بقدر المعروف يعني إذا كان الملك مناصفة فيأخذ منه نصف المصرف وإذا كان مشتركا بوجه آخر فيأخذ المصرف على تلك النسبة.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 316)
(إذا عمر أحد الملك المشترك من نفسه أي بدون إذن من شريكه أو القاضي يكون متبرعا أي ليس له أن يأخذ من شريكه مقدار ما أصاب حصته من المصرف سواء كان ذلك الملك قابلا للقسمة أو لم يكن) إذا عمر أحد الملك المشترك من نفسه أي بدون أخذ إذن من شريكه أو القاضي على الوجه المبين في المواد (1310 و 1313 و 1315) يكون متبرعا أي ليس للشريك المعمر أن يأخذ من شريكه مقدار ما أصاب حصته من المصرف سواء كان ذلك الملك المشترك قابلا للقسمة أو لم يكن.
 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 747)
 (عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء فلا رجوع له ولو اختلفا في الإذن وعدمه، ولا بينة فالقول لمنكره بيمينه، وفي أن العمارة لها أو له فالقول له لأنه هو المتملك كما أفاده شيخنا
جامع الفصولين (2/ 119)
عمر دار امرأته فمات وتركها وابنا فلو عمرها بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها فتغرم حصة الابن ولو عمرها لنفسه بلا إذنها فالعمارة ميراث عنه وتغرم قيمة نصيبه من العمارة وتصير كلها لها ولو عمرها لها بلا إذنها قال النسفي العمارة كلها لها ولا شيء عليها من النفقة فإنه متبرع وعلى هذا التفصيل عمارة كرم امرأته وسائر أملاكها.

محمدنصیر

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 02،ذوالقعدہ،1443ھ              

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب