021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث میں سے اپنا حصہ معاف کرنا
77434میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر بہن بھائی اپنا حصہ چھوڑدیں اور کہہ دیں کہ ہم اپنا حصہ میت کی بیوی اور بیٹیوں کو دینا چاہتے ہیں تو کیا وہ ایسا کرسکتے ہیں اور میت کی بیوی اور بیٹیاں ان کا حصہ لے سکتی ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب تک میراث کا مال اپنی اصل حالت میں موجود ہو تب تک ورثہ میں سے کسی کے معاف کرنے سے اس کا حصہ معاف نہیں ہوتا،کیونکہ اعیان سے ابراء صحیح نہیں،چونکہ مذکورہ صورت میں میرإث کا مال ابھی تک اپنی اصلی شکل میں باقی ہے،اس لئے میت کے بہن بھائیوں کی معافی سے میراث میں سے ان کا حصہ ساقط نہیں ہوگا۔

اگر مرحوم کے بہن بھائی میت کی اولاد اور بیوی سے ہمدردی کی خاطر اپنا حصہ انہیں دینا چاہتے ہیں تو اس کا  آسان طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے بہن بھائی ترکہ میں سے کوئی چھوٹی(کم قیمت) چیز لے کر اپنے بقیہ حصے سے دستبردار ہوجائیں۔

پھر اس کے بعد اگر وہ چاہیں تو جو اشیاء انہوں نے ترکہ میں سے اپنے حصے کے بدلے لی ہوں دوبارہ مرحوم کی بیوی اور بچیوں کو واپس دے سکتے ہیں،لیکن یہ واضح رہے کہ ان کی طرف سے واپسی بھی ہبہ کے حکم میں ہوگی اور ہبہ کے تام ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جو چیز جسے ہبہ کی جائے اس کے قبضے میں بھی دے دی جائے اور اگر ایک سے زیادہ لوگوں کو کوئی ایسی چیز ہبہ کی جائے جو تقسیم کے قابل ہو تو اسے باقاعدہ تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کا حصہ علیحدہ کرکے  دیا جائے۔

حوالہ جات
"غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائرللحموي" (3/ 354):
" لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك، والحق يبطل به حتى لو أن أحدا من الغانمين قال قبل القسمة: تركت حقي بطل حقه، وكذا لو قال المرتهن: تركت حقي في حبس الرهن بطل،كذا في جامع الفصولين للعمادي، وفصول العمادي .
قوله: لو قال الوارث: تركت حقي إلخ. اعلم أن الإعراض عن الملك أو حق الملك ضابطه أنه إن كان ملكا لازما لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال أحدهما: تركت نصيبي من الميراث لم يبطل لأنه لازم لا يترك بالترك بل إن كان عينا فلا بد من التمليك وإن كان دينا فلا بد من الإبراء، وإن لم يكن كذلك بل ثبت له حق التملك صح كإعراض الغانم عن الغنيمة قبل القسمة كذا في قواعد الزركشي من الشافعية ولا يخالفنا إلا في الدين، فإنه يجوز تمليكه ممن هو عليه.
قوله: كذا في جامع الفصولين. يعني في الثامن والثلاثين وعبارته: قال أحد الورثة برئت من تركة أبي؛ يبرأ الغرماء عن الدين بقدر حقه لأن هذا إبراء عن الغرماء بقدر حقه فيصح ولو كانت التركة عينا لم يصح. ولو قبض أحدهم شيئا من بقية الورثة وبرئ من التركة وفيها ديون على الناس لو أراد البراءة من حصة الدين صح لا لو أراد تمليك حصته من الورثة لتمليك الدين ممن ليس عليه".
"تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق" (5/ 49):
"قال – رحمهﷲ - (وإن أخرجت الورثةأحدهم عن عرض أو عقار بمال، أو عن ذهب بفضة، أو بالعكس) أي عن فضة بذهب (صح قل، أو كثر) يعني قل ما أعطوه أو كثر؛ لأنه يحمل على المبادلة؛ لأنه صلح عن عين ولا يمكن حمله على الإبراء إذ لا دين عليهم ولا يتصور الإبراء عن العين".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

04/محرم1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب