021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بٹگرام کےایک گاؤں "پیرہاڑی” میں جمعہ قائم کرنے کاحکم
77594نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ضلع بٹگرام تھانہ کوزہ بانڈہ سے تقریباً 10 کلومیٹرکے فاصلے پر گاؤں پیرہاڑی واقع ہے جوکہ یونین کونسل ترندمیں واقع ہے ،اس گاؤں میں ایک مرکزی جامع مسجد صدیق اکبرکے نام سے تعمیرہوچکی ہے،جامع مسجد کے قریب کی آبادی تقریبا50سے زیادہ گھرانوں پر مشتمل ہے اوراطراف میں بہت سے  چھوٹے چھوٹے گاؤں بھی واقع ہیں، ان میں سےکسی میں بھی جمعہ کی نماز نہیں پڑھی جاتی جبکہ تھانہ کوزہ بانڈہ بازاراورترند یونین کونسل میں جمعہ کی نمازپڑھی جاتی ہے جوکہ سات کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے ،جامع مسجد کے متصل ایک بڑی دکان ہےاور تقریباً دوسومیٹر کے فاصلہ پر10دکانیں اور3 میڈیکل سٹوربھی ہیں جہاں پر ضرورت کی ہرچیز تقریباً ملتی ہے جبکہ ہوٹل نہیں ہے ،گاؤں کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ یہاں پر جمعہ کی نماز شروع کیا جائے تاکہ اطراف کے لوگ جمعہ کی نماز میں شریک ہوکرجمعہ سے محرم نہ رہیں مذکورہ بالاتفصیل کی روشنی میں پوچھنایہ ہے کہ

کیاگاؤں پیرہاڑی میں نمازجمعہ شروع کرنا درست ہے یانہیں ؟ شریعت کی روشنی میں مدلل جواب مطلوب ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ حضراتِ حنفیہ رحمھم اللہ کے اصل مذہب کے مطابق جمعہ تین جگہ پڑھنا صحیح ہوتاہے :

}١ {شہر۔

}۲{ قصبہ یعنی بڑاگاؤں جس میں شہر کی طرح جملہ ضروریاتِ زندگی ملتی ہوں ۔

}۳{ فناء شہریافناءِقصبہ یعنی شہریاقصبہ کے متعلقہ مضافات۔

ان کے علاوہ چھوٹے گاؤں اوردیہات میں جمعہ پڑھناحنفیہ رحمھم اللہ کے ہاں جائزنہیں۔

اس تمہید کے آپ کے سوال کاجواب درج ذیل ہے

سوال میں مذکورجگہ کےجوحالات سوال میں مذکورہیں اورجودیگرذرائع سے معلوم ہوئیں ان کی روسے نہ تویہ جگہ شہر ہے کہ اس بناء پر وہاں جمعہ پڑھناصحیح ہوجائے اورنہ ہی کسی شہریابڑے گاؤں کے فناء کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ جگہ کسی شہر یابڑے گاؤں کی مصالح اورضروریات کے لئے نہیں ،بلکہ عرف میں بالکل مختلف نام سے موسوم جگہ ہے، لہذااس بناء پربھی اس جگہ  جمعہ قائم کرنے کوجائزنہیں کہاجاسکتا،رہ گئی یہ بات کہ آیا اس جگہ کی اپنی حیثیت قریہ کبیرہ کی ہے کہ اس بناء پر جمعہ کی نماز وہاں جائز قراردی جائے ؟  توحاصل کردہ معلومات کی  روسے تو یہ یقیناً  قریہ کبیرہ نہیں ،لہذا اس جگہ حنفیہ کے ہاں جمعہ شروع کرنا جائزنہیں ،ظہرپڑھناضروری ہے ۔

حوالہ جات
وفی رد المحتار - (ج 6 / ص 44)
تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم : هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه ، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة ؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر ، وهذا إذا لم يتصل به حكم ، فإن في فتاوى الديناري إذا بني مسجد في الرستاق بأمر الإمام فهو أمر بالجمعة اتفاقا على ما قال السرخسي ا هـ فافهم والرستاق القرى كما في القاموس
وفی رد المحتار - (ج 6 / ص 44)
لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة ؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر
الدر المختار للحصفكي - (ج 2 / ص 148)
(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء: الاول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء.مجتبى لظهور التواني في الاحكام، وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض يقدرعلى إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى.وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي، وإذا اتصل به الحكم صارمجمعا عليه، فليحفظ (أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أولا، كما حرره ابن الكمال وغيره (لاجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل، والمختار للفتوى تقديره بفرسخ، ذكره الولوالجي.(و) الثاني: (السلطان) ........(و) الثالث: (وقت الظهر .......(و) الرابع: (الخطبة فيه) فلو خطب قبله وصلى فيه لم تصح.(و) الخامس: (كونها قبلها) لان شرط الشئ سابق عليه ..........(و) السادس: (الجماعة) .........(و) السابع: (الاذن العام) من الامام، وهو يحصل بفتح أبواب الجامع للواردين، كافي.فلا يضر غلق باب القلعة لعدو أو لعادة قديمة، لان الاذن العام مقرر لاهله وغلقه لمنع العدو لا المصلي، نعم لو لم يغلق لكان أحسن كما في مجمع الانهر معزيا لشرح عيون المذاهب،قال: وهذا أولى مما في البحر والمنح، فليحفظ
الدر المختار للحصفكي ج: 2 ص: 150
(فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أولا، كما حرره ابن الكمال وغيره (لاجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل، والمختار للفتوى تقديره بفرسخ، ذكره الولوالجي
رد المحتار - (ج 6 / ص 46)
اعلم أن بعض المحققين أهل الترجيح أطلق الفناء عن تقديره بمسافة وكذا محرر المذهب الإمام محمد
وبعضهم قدره بها وجملة أقوالهم في تقديره ثمانية أقوال أو تسعة غلوة ميل ميلان ثلاثة فرسخ فرسخان ثلاثة سماع الصوت سماع الأذان والتعريف أحسن من التحديد لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر وإنما هو بحسب كبر المصر وصغرهبيانه أن التقدير بغلوة أو ميل لا يصح في مثل مصر لأن القرافة والترب التي تلي باب النصر يزيد كل منهما على فرسخ من كل جانب ، نعم هو ممكن لمثل بولاق فالقول بالتحديد بمسافة يخالف التعريف المتفق على ما صدق عليه بأنه المعد لمصالح المصر فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك وأي موضع يحد بمسافة يسع عساكر مصر ويصلح ميدانا للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع وهذا يزيد على فراسخ فظهر أن التحديد بحسب الأمصار ا هـ
وفی رد المحتار - (ج 6 / ص 44) 
تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم : هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه مزیدتفصیل کے لئے دیکھئے امدادالاحکام ج:١ از صفحہ ۷۲۵تا۷۳١احسن الفتاوی ج:۴رسالة النخبة فی مسئلة الجمعہ والخطبہ اوراس کاتتمہ ج:١۰ص۳۹٦تا۴۲١اوراعلاء السنن ج۵ص ۲۲۷۴تا۲۲۹۹۔ 
وفی الموسوعة الفقهية الكويتية - (ج 28 / ص 200)
من كانوا يقيمون في قرية نائية ، لا يكلّفون بإقامة الجمعة ، وإذا أقاموها لم تصحّ منهم . قال صاحب البدائع : المصر الجامع شرط وجوب الجمعة ، وشرط صحّة أدائها عند أصحابنا ، حتّى لا تجب الجمعة إلاّ على أهل المصر ومن كان ساكناً في توابعه ، وكذا لا يصحّ أداء الجمعة إلاّ في المصر وتوابعه .فلا تجب على أهل القرى الّتي ليست من توابع المصر ، ولا يصحّ أداء الجمعة فيها .
وفی فتاوی دارالعلوم دیوبند علی الشبکة :
قریہ کبیرہ کے لیے کم ازکم تین چار ہزار کی آبادی والا گاوٴں ہو جہاں مختلف ومتعدد گلیاں ہوں، اتنی کثرت سے دوکانیں ہوں کہ وہاں کے لوگوں کی روز مرہ کی ضروریات پوری ہوجاتی ہوں، وہاں مدنیت بھی ہو، یہ سب شرائط نہ ہوں تو وہاں ظہر کی نماز باجماعت اذان واقامت کے ساتھ پڑھنی چاہیے، وہاں جمعہ پڑھنے سے ظہر کا فریضہ سر سے ساقط نہ ہوگا اور جمعہ بھی ادا نہ ہوگا۔ اصل تو ظہر کی نماز ہے اصل چھوڑکر قائم مقام یعنی جمعہ کیوں پڑھتے ہیں؟ https://darulifta-deoband.com/home/ur/jumuah-eid-prayers/151253
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

سیدحکیم شاہ عفی عن

دارالافتاء جامعۃ الرشید

 24/1/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب