021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بکریاں چرانےکےلیےدیں،لیکن مدت اوراجرت متعین نہیں کی تواجار فاسد ہوگا
77617اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے فاسد معاملات کا بیان

سوال

سوال: ایک عورت جس کانام عیدل  ہے،اورایک بندہ تھا،جس کانام اللہ داد تھا،عیدل  نے اللہ داد کو جانوردیےچرانےکےلیے،جانوروں میں 2گائےاور3بکریاں تھیں،لیکن ان دونوں نے واضح طورپر جانوروں کی قیمت اورسیلری وغیرہ مقررنہیں کی  تھی،بس ایسےہی عیدل  نےجانور دیےاوراللہ دادچرانےلگ گیا،تین مہینےبعد عیدل  نےایک بکری کسی اورکو دےدی،باقی جانوروں میں سےدوبکریاں اوردوگائےرہ گئیں۔

چنددنوں بعد ان میں آپس میں تھوڑاجھگڑاہوا،اس بات پر کہ اللہ داد نے عیدل  سےکہاکہ اب ان کےچارےوغیرہ کےکچھ پیسے دےدو،توعیدل  نے کہاکہ 7یا 8سال کےبعد(دونگی)تواللہ داد نے کہا 8سال تک بھینس کابھوسہ چوکر وغیرہ لیناہے،اسی بات پرعیدل  نے اپنامال  واپس لےلیا۔

مطلب:3 مہینےتک جانوروں کی تعداد                                               3بکریاں 2 گائے

4مہینےتک جانوروں کی تعداد:        2بکریاں 2گائے

(ایک بکری اللہ دادسے بغیر پوچھے کسی اورکودےدی،جبکہ وہ بکری حاملہ بھی تھی)

3 مہینے:ایک بھینس تھی۔۔۔یہ ٹوٹل ملاکر 10 مہینےبنتےہیں،اس کےبعداس بات پرجھگڑاہوا اللہ دادنےکہاکہ  ان جانوروں کےچارےوغیرہ کاکچھ خرچہ دوگی؟عیدل  نےکہاکہ آخرمیں دونگی۔

اللہ دادنےکہامیں نےیہ جانور 10 مہینےچرائےہیں،لہذامیں 3000روپےماہانہ کےحساب سےٹوٹل 30000اجرت لونگا ۔کیامذکورہ معاملہ شرعادرست ہے؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ عقداجارہ کاتھا،جس کےجائزہونےکےلیےبنیادی شرط یہ ہےکہ  مدت متعین ہواوراجرت بھی متعین ہو،جبکہ مذکورہ مسئلہ میں نہ مدت متعین کی گئی تھی،اورنہ ہی اجرت طے کی گئی،گویااجارہ  کی مدت اوراجرت میں جھگڑےتک پہنچانےوالی جہالت موجودتھی،جس کی وجہ سےعقداجارہ فاسد ہوگیاتھا،اوراصول یہ ہےکہ جب عقداجارہ فاسد ہوجائےتوکام کرنےوالےکو اس کی اجرت مثل( اس طرح کےکام کی عام طورپر جواجرت  ہو)دی جاتی ہے۔

صورت مسئولہ میں بھی یہ عقداجارہ فاسدہونےکی وجہ سےاللہ دادکواس کےکام کی اجرت مثل ملےگی،عیدل  کےذمہ لازم  ہوگاکہ وہ مارکیٹ ریٹ  کےمطابق اللہ داد کو اس کےکام  کی اجرت دے۔

چونکہ اجارہ فاسدتھا،اس لیےچرانےکی مدت کےدوران اگراللہ دادنےجانوروں سےدودھ وغیرہ کافائدہ اٹھایاہوتووہ اس کےلیےحلال نہیں  ہوگا،جب اجارہ فاسدہوجائےتواصولی طورپرمکمل نفع مالک کاہوتاہے،لہذااللہ دادنےاس دوران جتنانفع حاصل کیااندازہ لگاکراس کےبقدررقم  عیدل کوواپس کی جائےیاپھربھینس کی خریداری کےدوران 130000میں اس نفع کی قیمت کوبھی شامل کیاجائے۔

جہاں تک بات ہےچارہ وغیرہ کی توچارہ وغیرہ کےاخراجات مالک یعنی عیدل  کےذمہ تھے،جتنی مدت اللہ داد نےچرایااورخودخرچہ کیاوہ عیدل  سےوصول کرسکتاہے۔

واضح رہےکہ چارہ کےاخراجات سےمراد وہ چارہ ہے،جس کوخودخریدکریاکسی کی مملوکہ جگہ سےکاٹ کرجانوروں کوکھلایاجائے،اگرمباح گھاس  چارہ کےطوپرراستعمال کی جائےجس کاعام طورپرکوئی خرچہ نہیں ہوتا،ایسی صورت میں چارہ کےاخراجات مالک سےوصول کرناشرعاجائزنہیں ہوگا،البتہ چرانےکےعمل کی اجرت وصول کی جاسکتی ہے۔

اللہ دادنےجو3000روپےماہانہ طےکیےہیں،اگریہ کام کی اجرت اورچارہ کاخرچہ دونوں چیزوں  کےطےکیےگئےہیں تو باہمی رضامندی سےیہ بھی وصول کیےجاسکتےہیں ورنہ کام کی اجرت اور چارہ کاخرچہ الگ الگ بھی وصول کیا جاسکتاہے۔

حوالہ جات
"الدر المختار للحصفكي "5 / 330:
(تفسدالاجارةبالشروط المخالفةلمقتضى العقدفكلماأفسدالبيع) (يفسدها) كجهالةمأجور أو أجرة أو مدة أو عمل الخ۔
"رد المحتار" 24 / 267:
(و)تفسد(بجهالة المسمى )كله أوبعضه كتسمية ثوب أودابة أومائة درهم على أن يرمها المستأجرلصيرورة المرمیة من الأجرة فيصيرالأجرمجهولا(و)تفسد(بعدم التسمية)أصلاأو بتسمية خمرأوخنزير(فإن فسدت بالأخيرين)بجهالة المسمى وعدم التسمية(وجب أجر المثل)يعني الوسط منه ولا ينقص عن المسمى لا بالتمكين بل ( باستيفاء المنفعة ) حقيقة كما مر( بالغا ما بلغ ) لعدم ما يرجع إليه ولا ينقص عن المسمى  الخ۔۔۔
"مجلة الأحكام العدلية" 1 / 88:
( المادة 462 ) فساد الإجارة ينشأ بعضه عن كون البدل مجهولا وبعضه عن فقدان باقي شرائط الصحة . ففي الصورة الأولى يلزم أجر المثل بالغا ما بلغ وفي الصورة الثانية يلزم أجر المثل بشرط أن لا يتجاوز الأجر المسمى ۔
"رد المحتار" 24 /  255:
(ولاتملك المنافع بالإجارة الفاسدة بالقبض،بخلاف البيع الفاسد)فإن المبيع يملك فيه بالقبض ، بخلاف فاسد الإجارة ، حتى لو قبضها المستأجر ليس له أن يؤجرها۔
"خلاصة الفتاوی:3/114
" رجل دفع بقرةً إلى رجل بالعلف مناصفة وهي التي تسمى بالفارسية كاونيم سوو بأن دفع على أن ما يحصل من اللبن والسمن بينهما نصفان فهذا فاسد والحادث كله لصاحب البقرة والإجارة فاسدة۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

/24محرم الحرام 1444 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب