021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تصاویر، بالخصوص سیٹینک (Satanic) تصاویر والی شرٹس بیچنے کا حکم
77656خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

(1)۔۔۔ جن شرٹس پر تصاویر بنی ہوں، ان کی خرید اور فروخت کا حکم کیا ہے ؟

(2)۔۔۔ میں نے کچھ شرٹس کاروبار کی نیت سے خریدی ہیں، ان پر شیطان پرستوں کے مختلف شعائر بنے ہوئے ہیں، بعض پر صرف بڑا صلیب بنا ہوا ہے جو شرٹ کے سامنے کے پورے حصے پر پھیلا ہوا ہے، بعض پر اتنے ہی بڑے صلیب کے ساتھ مرد کی تصویر بھی بنی ہوئی ہے، بعض پر خاتون کی بڑی تصویر بنی ہوئی ہے، اور بعض  پر دیگر مختلف شیطانی شکلیں، تصاویر اور  شرک کی علامتیں بنی ہوئی ہیں، ایک تصویر پر دو ہاتھوں کی تصویر ہے، دونوں ہاتھ جڑے ہوئے ہیں، اور ان کی پشت پر ایک آنکھ بنی ہوئی ہے جو شیطان پرستوں کی مشہور علامت ہے۔ یہ تصایر اور شکلیں اتنی بڑی ہیں کہ شرٹ کے سامنے کا تقریبا پورا حصہ گھیرا ہوا ہوتا ہے، نیز ہر شرٹ پر گردن کی طرف حیوان جیسی ایک تصویر بنی ہوئی ہے۔ لوگ ان شکلوں، تصاویر اور ڈیزائنز کو دیکھ کر شرٹ پسند کرتے ہیں، اور ان کی بنیاد پر شرٹ خریدتے ہیں۔  

 میرا سوال یہ ہے کہ میں ان شرٹس کو جنوبی افریقہ میں غیر مسلموں پر بیچ سکتا ہوں یا نہیں؟ کفار کے ساتھ  ان کا لین دین جائز ہے یا نہیں؟ ان میں سے تین چار میں نے بیچ دی ہیں،  ان سے حاصل شدہ رقم کا کیا حکم ہوگا؟  باقی میں نے ابھی رکھی ہوئی ہیں، ان کو واپس بھی کرسکتا ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔۔ جن اشیاء پر جاندارکی تصاویر بنی ہوتی ہیں، ان کی اقسام مع احکام درج ذیل ہیں:-

(الف)۔۔۔ ایسی چیزیں جن کا مقصد کوئی جائز امر ہو، لیکن ان میں ضمنًا اور تبعًا تصاویر بھی شامل ہوں، جیسے اخبارات اور ایسی کتابیں جن میں جاندار کی تصویریں چھپی ہوتی ہیں، اسی طرح مختلف اشیاء کے ڈبے اور کاٹن وغیرہ جن پر جاندار کی تصاویر چھپی ہوتی ہیں۔ اس طرح تصاویر چھاپنا اگرچہ جائز نہیں، گناہ کا کام ہے، لیکن چونکہ ان اشیاء کی خرید وفروخت میں تصاویر مقصود نہیں ہوتیں؛ بلکہ مقصود وہ چیز ہوتی ہے؛ اس لیے اس طرح کی اشیاء کی خرید وفروخت جائز ہے۔

(ب)۔۔۔ وہ اشیاء جن میں اصل مقصد تصاویر ہوتی ہیں، لیکن تصاویر مٹانے یا ہٹانے کے بعد بھی ان سے کوئی جائز فائدہ اٹھانا ممکن ہو، مثلا جاندار کی تصویر والا کپڑا، کاغذ، بینر اور وہ فریم جن میں جاندار کی تصاویر بند کی گئی ہوں، اور لوگ ان کو تصاویر کی وجہ سے خریدتے ہوں۔ اس قسم کی چیزوں کی خرید وفروخت مکروہِ تحریمی یعنی ناجائز ہے۔

(ج)۔۔۔ ایسی اشیاء جن میں کوئی جائز امر اور تصویر دونوں مقصود ہوں، تصویر محض تابع نہ ہو، جیسے وہ شرٹس جن پر مشہور شخصیات (Celebrities) کی تصاویر بنی ہوتی ہیں کہ ان میں باقاعدہ تصویر دیکھ کر انتخاب کیا جاتا ہے۔ اب پہننے کے لیے شرٹ یا کوٹ وغیرہ خریدنا جائز ہے، لیکن کسی مخصوص تصویر والی شرٹ وغیرہ کا انتخاب کرنے سے وہ تصویر بھی مقصود بن جاتی ہے جو کہ جائز نہیں۔ اس لیے اس قسم کی چیزوں کی خرید وفروخت بھی مکروہِ تحریمی یعنی ناجائز ہوگی۔    

(د)۔۔۔ ایسی اشیاء جن میں کوئی جائز امر اور تصویر دونوں مقصود ہوں، اور وہ تصویر عام تصویر نہ ہو، بلکہ کفار کا مذہبی شعار ہو، یا اس کے ساتھ کوئی غلط عقیدہ جڑا ہوا ہو۔ اس قسم کی اشیاء کی خرید وفروخت بھی مکروہِ تحریمی یعنی ناجائز ہوگی، اور اس کی کراہت (ب) اور (ج) کے تحت بیان کردہ کراہت سے زیادہ شدید ہوگی؛ کیونکہ اس میں تصویر مقصود ہونے کے علاوہ کفار کے مذہبی شعائر اور ان کے باطل اور ناپاک عقائد کی ترویج اور اشاعت بھی ہے جو عدمِ جواز کا مستقل سبب ہے۔  

(2)۔۔۔ آپ نے جن شرٹس کی تصاویر بھیجی ہیں، انہیں Satanic T-Shirts یعنی "شیطانی ٹی شرٹس" کہا جاتا ہے، یہ Satanism سے منسوب ہے۔  Satanism یعنی شیطانیت، ان لوگوں کا مذہب اور عقیدہ ہے جو – معاذ اللہ - شیطان کی پوجا کرتے ہیں۔ 1966ء میں امریکہ میں Church of  Satan  کی بنیاد رکھی گئی، جس سے اس عقیدے نے مذہب اور تحریک کی شکل اختیار کی۔ اس عقیدے کا شعار پانچ کونوں والا ستارہ ہے، اس ستارے پر بھی بعض دفعہ وہ حیوانی شکل بنی ہوتی ہے جو ان شرٹس پر گردن کی طرف بنی ہوئی ہے۔ Satanism یعنی شیطانیت کے پیروکار عیسائیت کی بعض علامات، صلیب وغیرہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان شرٹس پر Satanism کے مختلف جملے بھی لکھے ہوتے ہیں۔   

چونکہ ان شرٹس پر بنی ہوئی تصاویر ایک تو خریداری میں مقصود ہوتی ہیں کہ ان کو دیکھ کر شرٹس پسند

کی جاتی ہیں، دوسرا یہ تصاویر کفر کی بدترین شکل کی نمائندہ، اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینے

والی ہیں؛ اس لیے کسی مسلمان کے لیے ایسی شرٹس یا دیگر اشیاء کی خرید وفروخت شرعا جائز نہیں، اس سے بچنا لازم اور ضروری ہے۔

جو شرٹس ابھی آپ نے بیچی نہیں ہیں، بلکہ آپ کے پاس رکھی ہوئی ہیں، ان کے بارے میں حکم یہ ہے کہ وہ اپنے بائع (جس سے آپ نے یہ شرٹس خریدی ہیں) کو واپس کردیں۔ اور جو تین چار شرٹس آپ نے بیچی ہیں، اس پر سب سے پہلے توبہ اور استغفار کریں۔ جہاں تک ان شرٹس سے حاصل ہونے والی رقم کا تعلق ہے تو چونکہ یہ رقم دو ایسی چیزوں (تصویر اور کپڑے) کے مجموعہ کے بدلے میں آئی ہے جو دونوں بیع میں مقصود ہوتی ہیں اور ان میں سے ایک جائز اور ایک ناجائز تھی؛ اس لیے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ آپ یہ پوری رقم (قیمتِ خرید مع نفع) بلا نیتِ ثواب مستحقِ زکوۃ فقراء کو دیدیں۔ لیکن اگر پوری رقم بلا نیتِ ثواب فقراء کو دینا مشکل ہو تو اس بات کی بھی گنجائش معلوم ہوتی ہے کہ یہ تین چار شرٹس آپ کو جس قیمت پر ملی تھیں، اس قیمت کو ان دونوں چیزوں (کپڑے اور تصاویر کی ڈیزائننگ) پر تقسیم کریں، اسی طرح آپ نے ان کو آگے بیچ کر جو نفع کمایا ہے، اس کو بھی ان دونوں چیزوں پر تقسیم کریں، پھر خالص کپڑے کی قیمتِ خرید اور اس کا نفع اپنے پاس رکھ لیں، اور تصاویر اور ناجائز ڈیزائننگ کی قیمتِ خرید اور نفع فقراء کو بلا نیتِ ثواب دیدیں۔

حوالہ جات
القرآن الکریم  :  
{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ } [ المائدة: 2]
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} [المائدة: 90]
{قَالَ بَلْ رَبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَى ذَلِكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ (56) وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُمْ بَعْدَ أَنْ تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ (57) } {فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ (58) } [ سورۃ الأنبياء]
{ أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَابَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (60) وَأَنِ اعْبُدُونِي هَذَا صراطٌ مُسْتَقِيمٌ (61) وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيرًا أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ (62) }  [سورۃ يس]
أحكام القرآن للجصاص (4/ 127):
وأما الأنصاب فهي ما نصب للعبادة من صنم، أو حجر غير مصور، أو غير ذلك من سائر ما ينصب للعبادة.
الخراج للإمام أبي يوسف (ص: 127):
وحدثني عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان عن أبيه ان عمر بن عبد العزيز كتب إلى عامل له: أما بعد، فلا تدعن صليبا ظاهرا إلا كسر ومحق…….. الخ  
الفتاوى الهندية (2/ 215):
قال محمد رحمه الله: إذا أصاب المسلمون غنائم وكان فيما أصابوا مصحف فيه شيء من كتب اليهود والنصارى، لا يدري أن فيه توراة، أو زبورا، أو إنجيلا، أو كفرا؛ فإنه لا ينبغي للإمام أن
يقسم ذلك في مغانم المسلمين، ولا ينبغي أن يحرق بالنار، وإذا كره إحراقه ينظر بعد هذا، إن كان لورقه قيمة وينتفع به بعد المحو والغسل بأن كان مكتوبا على جلد مدبوغ أو ما أشبه ذلك فإنه يمحى ويجعل الورق في الغنيمة، وإن لم تكن لورقه قيمة ولا ينتفع به بعد المحو بأن كان مكتوبا على القرطاس يغسل. وهل يدفن وهو على حاله؟ إن كان موضعا لا يتوهم وصول يد الكفرة إليه يدفن، وإن كان موضعا يتوهم وصول يد الكفرة إليه لا يدفن. وإن أراد الإمام بيعه من رجل مسلم، فإن كان الذي يريد شراءه ممن يخاف عليه أن يبيعه من المشركين رغبة منه في المال يكره بيعه منه، وإن كان موثوقا به ويعلم أنه لا يبيعه من المشركين فلا بأس ببيعه منه.
 قال مشايخنا رحمهم الله تعالى: والجواب في بيع كتب الكلام على هذا التفصيل إن كان الذي يريد شراءها ممن يخاف عليه الإضلال والفتنة يكره للإمام أن يبيعها منه، وإن كان موثوقا به لا يخاف عليه الإضلال والفتنة لا يكره بيعها منه.  
قال: وإن وجدوا في الغنيمة قلائد ذهب أو فضة فيها الصليب والتماثيل؛ فإنه يستحب كسرها قبل القسمة، وإن أراد بيعها من رجل إن كان الذي يريد شراءها موثوقا به لا يخاف عليه بيعها من المشركين؛ فإنه لا بأس بالبيع منه، وإن كان غير موثوق به ويخاف عليه بيعها من المشركين فإنه يكره بيعها منه. وإن كان الصليب والتماثيل في الدراهم المضروبة والدنانير المضروبة فأراد بيعها من غيره قبل الكسر أو أراد قسمتها قبل الكسر فلا بأس به.  
فقه البیوع (1/ 191-189):
أما الحنفیة فالظاهر من متونهم أنهم فرقوا بین ما قامت المعصیة بعینه، فکرهوا بیعه، کبیع السلاح من أهل الفتنة وبیع أمرد ممن یفجر به، وبین ما لم تقم العصیة بعینه، بل تحتاج إلی صنعة من المشتري، فأجازوا بیعه، کبیع العصیر ممن یتخذه خمرا، وبیع أرض لمن یتخذه کنیسة.
وإن عبارات القوم في شرح هذا الأصل مختلفة، وقد ألف والدي العلامة الشیخ المفتي محمد شفیع رحمه الله تعالی رسالة مستقلة في الموضوع جمع فیها نصوص الفقهاء الحنفیة، واستخلص منها ما یلي…….:
والذي ظهر لي بفضل الله وکرمه في الفرق بینهما هو أن ما قامت المعصیة بعینه هو ما کانت المعصیة في نفس فعل المعین، بحیث لاتنقطع عنه نسبتها بفعل ذلك الفاعل المختار.  وذلك
بثلاثة وجوه: الأول: أن یقصد الإعانة علی المعصیة……..… والثاني: بتصریح المعصیة في صلب العقد……. والثالث: بیع أشیاء لیس لها مصرف إلا في المعصیة، فیتمحض بیعها وإجارتها للمعصیة، وإن لم یصرح بها.
فقه البیوع (1/ 321-320):
بیع الصور غیر المجسدة ممنوع في مذهب الجمهور، ویدل علی ذلك  أن رسول الله صلی الله علیه وسلم حرم بیع الأصنام، ولفظ " الصنم " شامل في اللغة للصور التي لیس لها جثة، کما ذکره الحافظ ابن حجر رحمه الله عن بعض أهل اللغة
وإن کان الثوب أو القرطاس یُنتفع به بعد محو الصورة، فحکمه ما ذکرناه في آلات الملاهي من انعقاد البیع مع الکراهة عند الحنفیة والشافعیة. ولکن هذه الکراهة فيما إذا کان القرطاس أو الثوب متمحضًا للصورة.
أما إذا کان المبیع شیئًا آخر من المباحات، وهو مشتمل علی صور، فتدخل في البیع تبعًا، فیجوز بیعها. وهذا مثل الجرائد والصحف والکتب التي یقصد منها مضمونها المباح، ولکنها ربما تشتمل علی صورت ممنوعة، وکذلك ما عمت به البلویٰ من أن العُلَب التي تعبَّأُ بها الأشیاء المباحة، یشتمل أکثرها علی صور، فلایمنع من بیعها إذا کان المقصود الأشیاء المباحة دون الصور.
فقه البیوع (1/ 318-316):
فالقسم الأول: ما وضع لغرض محظور، ومادته مباحة، فلایستعمل في مباح إلا بتکلف أو إحداث تغییر فیه. وذکر فیه الفقهاء آلات الملاهي المحظورة، ویقصدون بها آلات الموسیقي الممنوعة في المذاهب الأربعة………. أما الحنفیة والشافعیة فبیع هذه الآلات صحیح منعقد عند هم؛ لأنه یمکن استعمالها في مباح، ولو بعد تغییرها، ولکن یکره البیع في حالتها الموجودة…….. والظاهر أن الکراهة التي ذکر ها الحنفیة في بیعها قبل فصلها تحریمیة؛ لما قال ابن الهمام في أول شرحه لِ " فصل في ما یکره " من الهدایة: "لما كان دون الفاسد أخره عنه، وليس المراد بكونه دونه في حكم المنع الشرعي، بل في عدم فسادالعقد، وإلا فهذه الكراهات كلها  تحريمية، لا نعلم خلافا في الإثم. (6/476).
ومقتضاه أن لایطیب الثمن للبائع.
فقه البیوع (2/ 981):
البیع المکروه، والمراد منه البیع الذي نهی عنه الشارع لمعنی خارج عن صلب العقد. وحکمه عند الحنفیة أن عاقده یأثم، ولکن البیع نافذ مع الإثم، والکراهة في الجمیع تحریمیة. وذهب بعض الفقهاء الحنفیة إلی أن فسخه لیس بواجب، ولکن صحح ابن الهمام وغیره أن الفسخ واجب  علی العاقدین لرفع المعصیة بقدر الإمکان. وجمع ابن عابدین بین القولین بأن الفسخ
 المذکور في البیع المکروه واجب دیانةً فقط، وفي البیع الفاسد واجب دیانةً وقضاءً.
الدر المختار (5/ 105):
اعلم أن فسخ المكروه واجب على كل واحد منهما أيضا ، بحر وغيره ؛ لرفع الإثم ، مجمع.
رد المحتار (5/ 105):
قوله ( أيضا ) أي كما في البيع الفاسد وقدمنا عن الدرر أنه لا يجب فسخه وما ذكره الشارح عزاه في الفتح أول باب الإقالة إلى النهاية ثم قال وتبعه غيره وهو حق لأن رفع المعصية واجب بقدر الإمكان ا هـ  قلت: ويمكن التوفيق بوجوبه عليهما ديانة، بخلاف البيع الفاسد؛ فإنهما إذا أصرا عليه يفسخه القاضي جبرا عليهما؛ ووجهه أن البيع هنا صحيح ويملك قبل القبض ويجب فيه الثمن لا القيمة فلا يلي القاضي فسخه لحصول الملك الصحيح. قوله ( مجمع ) عبارته ويجوز البيع ويأثم ا هـ وليس فيه ذكر الفسخ.
فقه البیوع(2/1056):
وأما الوظائف المرکبة من الخدمات المباحة و الخدمات المحظورة، فلایجوز قبولها لاشتمالها علیٰ عمل محرم.و لکن إن قبل أحد مثل هذه الوظیفة، فما حکم الراتب الذی أخذه علیها؟ لم أجد فیها نقلاً فی کلام الفقهاء،إلا ماذکره ابن قدامة رحمه الله تعالیٰ:
"قال(أی للأجیر: استأجرتك) لتحمل لی هذه الصبرة و التی فی البیت بعشرة…..فإن کانا یعلمان التی فی البیت لکنها مغصوبة، أو امتنع تصحیح العقد فیها لمانع اختص بها، بطل العقد فیها، وفی صحة الأخریٰ وجهان بناءً علی تفریق الصفقة، إلا أنهما إن کانت قفزانهما معلومة، أو قدر أحدهما معلوم من الاٰخر، فالأولیٰ صحته؛ لأن قسط الأجر فیها معلوم. و إن لم یکن کذلك، فالاولیٰ بطلانه لجهالة العوض فیها".
والحاصل أن الإجارة فی الخدمة المباحة انما تصح  إذا کانت أجرتها معلومة بانفرادها. ولاتصح فیماإذا لم تکن أجرتها معلومة. فإن کان کذلك فی خدمات الفنادق و المطاعم والبنوك وشرکات التأمین، صارت أجرة الموظف فیها مرکبة من الحلال و الحرام. فدخلت فی الصورة الثالثة من القسم الثالث،  وحل التعامل معه بقدر الحلال.أما إذا لم تعرف أجرة الخدمة المباحة علی حدتها، فالإجارة فاسدة، ولکن الأجیر یستحق أجر المثل فی الإجارات الفاسدة، کما صرح به ابن قدامة رحمه الله تعالیٰ بذلك فی إجارات فاسدة أخری. وعلیٰ هذا، فإن مایقابل أجر المثل للخدمة المباحة فی راتبه ینبغی أن یکون حلالاً. فصار راتبه مخلوطاً من الحلال والحرام فی هذه الصورة أیضاً. فینبغی أن یجوز معه التعامل بقدر الحلال.          

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    21/محرم الحرام/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب