021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیررہائشی مدرسے کا مالی مشکلات کی وجہ سے زکوة لینے کا حکم
78017زکوة کابیانمستحقین زکوة کا بیان

سوال

ایک غیر رہائشی مدرسہ میں مقامی آبادی کے بچوں اور بچیوں کے لیے حفظ و ناظرہ اور اسکول کی بنیادی تعلیم کا بندوبست بلا معاوضہ کیا گیا ہے،لیکن اساتذہ اور معلمات کے وظائف کے معاملے میں مالی مشکلات کا سامنا ہے،کیا کوئی ایسی ترتیب ممکن ہے کہ انتظامیہ زکوۃ وصول کرکے عملے کی تنخواہوں کا بندوبست کرسکے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پہلے تو آپ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ آپ کے مدرسےمیں زیرِ تعلیم  بچوں میں سے درج ذیل قسم کے بچوں پر زکاة کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے:

1۔ایسے بالغ بچے جو صاحبِ نصاب نہ ہوں،یعنی اس کی ملکیت میں سونا،چاندی،نقدی،مال تجارت اور ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان میں سے بعض یا سب  کا مجموعہ اتنی مقدار میں نہ ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ (۳۵ء ۶۱۲ گرام )چاندی کے برابر ہو۔

2۔ایسے نابالغ بچے جو خود بھی صاحب نصاب نہ ہوں اور ان کے والدین بھی صاحبِ نصاب نہ ہوں۔

3۔ایسے یتیم بچے جن کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال نہ ہو۔

4۔یہ بچے سید نہ ہوں۔

ان کے علاوہ انتظامیہ کے جو افراد صاحب نصاب نہ ہوں انہیں بھی زکوة کی رقم کا مالک بنایا جاسکتا ہے۔

لیکن زکوۃ کی ادائیگی کے لیے  مستحقِ زکوۃ  شخص  کو  رقم کا  مالک   بنا کر دینا ضروری ہے ، اگر زکوۃ کی رقم مستحق شخص   کو مالک بنا کر نہ دی گئی  تو زکوۃ  ادا نہ  ہو گی ،لہذا آپ کے لئے آسان صورت یہ ہے کہ آپ مستحقِ زکوة بالغ طلبہ اور انتظامیہ یا مدرسے کے متعلقین سے سے بذاتِ خود،جبکہ نابالغ طلبہ کے ایسے سرپرستوں سے جو خود صاحب نصاب نہ ہوں زکوة کی وصولی کے لیے وکالت نامہ فارم پر دستخط لے لیں ،وکالت نامہ فارم پر دستخط لینے کے بعد مدرسے کی انتظامیہ ان مستحق افراد کی طرف سے وکیل بن کر لوگوں سے زکوة کی رقم وصول کرکے اساتذہ کے وظائف اور دیگر ضروریات میں خرچ کرسکے گی۔

وکالت نامہ فارم کی عبارت یوں بنائی جاسکتی ہے کہ:

میں بالغ طالب علم /نابالغ طالب علم  کا سرپرست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکول  کےانچارج /منتظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شناختی کارڈ نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کو اس بات کا اختیار دیتا ہوں کہ وہ میری  /  میرے زیر ِ کفالت ۔۔۔۔۔۔۔۔کی طرف سے  وکیل بن کر لوگوں سے زکوۃ اور  صدقات  واجبہ وصول کریں، پھر میری طرف سے وکیل بن کر  میری / ان کی اور دیگر مستحق طلبہ کے تعلیم و تعلم  کی ضروریات  پر خرچ کریں۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (2/ 349):
"(و) لا إلى (طفله) بخلاف ولده الكبير وأبيه وامرأته الفقراء وطفل الغنية فيجوز لانتفاء المانع.
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ  (قوله: وطفل الغنية) أي ولو لم يكن له أب بحر عن القنية (قوله: لانتفاء المانع) علة للجميع والمانع أن الطفل يعد غنيا بغنى أبيه بخلاف الكبير فإنه لا يعد غنيا بغنى أبيه ولا الأب بغنى ابنه ولا الزوجة بغنى زوجها ولا الطفل بغنى أمه ح في البحر".
" رد المحتار " (2 / 377):
"قوله: (تمليكا) فلا يكفي فيها الاطعام إلا بطريق التمليك، ولو أطعمه عنده ناويا الزكاة لا تكفي ط. وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق، إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالاب والوصي وغيرهما، ويصرف إلى مراهق يعقل الاخذ كما في المحيط".
"بدائع الصنائع " (4 / 3):
"ولو قضى دين حي فقير إن قضى بغير أمره لم يجز ؛ لأنه لم يوجد التمليك من الفقير لعدم قبضه وإن كان بأمره يجوز عن الزكاة لوجود التمليك من الفقير ؛ لأنه لما أمره به صار وكيلا عنه في القبض فصار كأن الفقير قبض الصدقة بنفسه وملكه من الغريم" .

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

27/ربیع الاول1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب