021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد میں بھیک مانگنے کا حکم
78462وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کیا مسجد میں بھیک مانگنا جائز ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں بتایے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فقہائے کرام رحمہم اللہ  نے لکھا ہےکہ جس شخص کے پاس صبح اور شام کا کھانا موجود ہو اس کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا اور بھیک مانگنا جائز نہیں، بلکہ اس پر لازم ہےکہ وہ دوسروں سے مانگنے کی بجائے خود مال کمائے اور اپنی ذات اور اہلِ خانہ پر خرچ کرے۔حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ جو شخص اپنی ذات اور اپنے اہلِ خانہ پر خرچ کرنے لیے کے لیے محنت اور کوشش کرتا ہے تو وہ اللہ کے راستے میں شمار ہوتا ہے۔

 اور آج کل عام طور پر بھیک مانگنے والوں کے پاس ایک دن کا کھانے کا انتظام ہوتا ہے، نیزمسجد میں بھیک مانگنے کی صورت میں مسجد کے بہت سے آداب کی خلاف ورزی بھی لازم آتی ہے، مثلاً: مسجد میں شور و شغب ہونا، نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہونا، نمازیوں کی گردنیں پھلانگنا وغیرہ۔اس لیے  مسجد میں بھیک مانگنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے اور لوگوں کو بھی چاہیے کہ  جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں، ایسے افراد کو بھیک نہ دے کر ان کی حوصلہ شکنی کریں۔ تاہم اگر کسی نے ایسے شخص کوچندہ دے دیا تو یہ گناہ اور ناجائز نہیں ہے۔ 

حوالہ جات
المعجم الكبير للطبراني (19/ 129) :
 عن كعب بن عجرة، قال: مر على النبي صلى الله عليه وسلم رجل، فرأى أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من جلده ونشاطه، فقالوا: يا رسول الله: لو كان هذا في سبيل الله؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن كان خرج يسعى على ولده صغارا فهو في سبيل الله، وإن كان خرج يسعى على أبوين شيخين كبيرين فهو في سبيل الله، وإن كان يسعى على نفسه يعفها فهو في سبيل الله، وإن كان خرج رياء ومفاخرة فهو في سبيل الشيطان»
الدر المختار مع حاشية ابن عابدين (1/ 659) دار الفكر-بيروت:
ويحرم فيه السؤال، ويكره الإعطاء مطلقا.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2/ 164) : دار الفكر-بيروت :
ويكره التخطي للسؤال بكل حال.
(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اهـومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اهـ. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم".  فقط واللہ اعلم
غنیۃ المتملی، فصل فی احکام المسجد، صفحہ 612، مطبوعہ  کوئٹہ:
حرمۃ السؤال فی المسجد، لانہ کنشدان الضالۃ والبیع ونحوہ و کراھۃ الاعطاء، لانہ یحمل علی السؤال قیل لا اذا لم یتخط الناس ولم یمر بین یدی مصل والاول احوط‘‘
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (1/ 550) دار الفكر - سوريَّة - دمشق:
وقال الحنفية: يحرم السؤال في المسجد، ويكره إعطاء السائل فيه شيئاً.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

16/جمادى الاولى 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب