78998 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
میرے ایک چچا تھے، وہ فوت ہوگئے ہیں، میری چچی چچا سے پہلے فوت ہوئی تھی۔ اب چچا کی ایک بیٹی، دو بھائی اور تین بہنیں زندہ ہیں۔ چچا کے انتقال کے وقت باقی ورثا میں سے کوئی زندہ نہیں تھا۔ اب چچا کی زمین میں سے کس کس کو حصہ ملے گا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
آپ کے مرحوم چچا نے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں نقدی، سونا، چاندی، جائیداد، مکانات، کاروبار غرض جو کچھ چھوٹا، بڑا ساز و سامان چھوڑا ہے، یا اگر کسی کے ذمہ ان کا قرض تھا، تو وہ سب اس کا ترکہ یعنی میراث ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں، البتہ اگر یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان اٹھائے ہوں تو پھر انہیں ترکہ سے نہیں نکالا جائے گا۔ اس کے بعد دیکھا جائے اگر اس کے ذمے کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے۔ اس کے بعد اگر اس نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ کی حد تک اس کو پورا کیا جائے۔ اس کے بعد جو کچھ بچ جائے، اس کو کل چودہ (14) حصوں میں تقسیم کر کے مرحوم کی بیٹی کو سات (7) حصے دیدیں، اور دو بھائیوں میں سے ہر ایک کو دو، دو (2، 2) حصے، جبکہ تین بہنوں میں سے ہر ایک کو ایک، ایک (1، 1) حصہ دیدیں۔
حوالہ جات
القرآن الکریم:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ} [النساء: 11]
السراجی فی المیراث (ص 38-36):
العصبات النسبیة ثلاثة: عصبة بنفسه، وعصبة بغیره، و عصبة مع غیره. أما العصبة بنفسه فکل ذکر لا تدخل فی نسبته إلی المیت أنثی، وهم أربعة أصناف: جزء المیت، و أصله، و جزء أبیه، و جزء جده، الأقرب فالأقرب، یرجحون بقرب الدرجة، أعنی أولاهم بالمیراث جزء المیت أی البنون ثم بنوهم و إن سفلوا……… و أما العصبة بغیره فأربع من النسوة، و هن اللاتی فرضهن النصف و الثلثان، یصرن عصبة بإخوتهن، کما ذکرنا فی حالاتهن.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
25/جمادی الآخرۃ/1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |