021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسکول کی شرکت کا حکم اور اُس سے نکلنے کا شرعی طریقہ (اسکول کی تعلیمی خدمات پر شرکت کا حکم اور اس سے کسی شریک کے نکلنے کا شرعی طریقہ)
79522شرکت کے مسائلمشترک چیزوں کے اخراجات کے مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں عُلمائے کرام اِس مسئلہ کے بارے میں:

4 افراد نے آپس میں مل کر اسکول بنایا۔ احسن کا حصہ 10 فیصد، عبد العزیز کا حصہ 10 فیصد، رئیس کا حصہ 40 فیصد اور عامر کا حصہ 40 فیصد مقرر کیا گیا۔ 5 ماہ تک 40 لاکھ روپے اسکول بلڈنگ کا کرایہ، فرنیچر، ٹیچرز، آیا، ایڈمن کی سیلری اور الیکٹرک سٹی بل وغیرہ پر خرچ کیے گیے۔ اسکول کا تمام کام اُجرت دے کر دوسروں سے کراوایا جاتا رہا۔ شرکاء میں سے کوئی بھی اسکول کے کام یا محنت میں شامل نہیں رہا۔

15 مئی 2022ء کو ایک نئے دوست: محمد عثمان کو 15 فیصد یعنی 6 لاکھ روپے پر شریک کیا گیا، اور بقول ہیڈ آفس مذکورہ حصہ رئیس بھائی کے 40 فیصد حصے سے خرید کر عثمان بھائی کو دیا گیا ہے۔ تاہم عثمان نے رئیس کو 6 لاکھ پورے ادا کرنے کے بجائے 3 لاکھ ادا کیے ہیں اور باقی رقم ساتھ ساتھ ادائیگی کا وعدہ کرلیا۔ اس کے علاوہ رئیس بھائی کے باقی 25 فیصد حصوں میں مزید 10 فیصد حصہ احسن اور عبد العزیز کو دے دیا گیا۔ چنانچہ احسن، عبد العزیز، رئیس اور عثمان میں سے ہر ایک کا حصہ 15 فیصد طے پایا، جبکہ عامر کا حصہ 40 فیصد برقرار رہا۔ مذکورہ اتفاق کے بعد تمام شرکاء نے آپس میں یہ طے کرلیا تھا کہ نفع و نقصان میں سارے برابر شریک ہوں گے۔

اِس کے علاوہ ایک شریک: عثمان کو ماہانہ 18,000 روپے تنخواہ پر اسکول کا ایڈمن بھی رکھ لیا گیا۔ اور عثمان نے احسن صاحب سے زبانی یہ معاہدہ بھی کرلیا تھا کہ اگر مَیں بیچ میں چھوڑ کر چلا جاؤں گا، تو مجھے میری لگائی ہوئی رقم واپس کی جائے گی، لیکن اگر اسکول بند کرنا پڑا، تو نقصان میں عثمان بھی برابر شریک ہوگا۔ اِس پر احسن صاحب نے اتفاق بھی کرلیا تھا۔

یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا، پھر آپس میں اختلافات ہوجانے کی وجہ سے رئیس، احسن اور عبد العزیز نے 10 ستمبر 2022ء کو عثمان کو ملازمت سے نکال دیا، اور اُس کی تنخواہ بھی ادا نہیں کی۔ مزید یہ کہ باقی شرکاء نے عثمان کو اپنے حصے کے اخراجات اور رئیس کا حصہ ادا کرنے کا پابند کیا، لیکن عثمان نے اُن کے ساتھ شرکت کا معاملہ برقرار رکھنے سے معذرت کرلی اور اپنا حصہ واپس مانگ لیا۔ اِس پر اسکول کے ہیڈ آفس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ چونکہ اب تک اسکول کو کوئی نفع حاصل نہیں ہوا ہے، بلکہ اُس پر خرچ کیا جا رہا ہے، نیز اسکول کی طرف سے عثمان کو ملنے والی ماہانہ تنخواہ (18,000 روپے) درحقیقت اسکول کے خسارے میں گئی ہے؛ کیونکہ عثمان کی وجہ سے اسکول میں کوئی ترقی نہیں ہوئی ہے، لہٰذا اُس کے لگائے ہوئے سرمایہ میں سے تنخواہ کی مد میں کُل 63,000 روپے کاٹے جائیں گے۔ اور بقایا رقم جنوری 2023ء تک ادا کی جائے گی، اِس دوران عثمان کی شرکت برقرار رہےگی اور وہ اخراجات وغیرہ میں شریک ہوگا۔ ہیڈ آفس نے دسمبر میں یہ بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ عثمان صاحب اپنی مرضی سے شرکت کے معاملے سے نکل رہے ہیں، لہٰذا جون 2022ء سے لے کر ستمبر 2022ء تک کے اخراجات اُن کے کھاتے میں ڈالے جائیں گے، جو بالترتیب 36,525/38,700/37,650/41,475 بنتے ہیں، نیز عثمان صاحب نے ماہِ اگست کا خرچہ رئیس صاحب کی طرف سے بھی اپنے بقایا جات میں سے ادا کیا تھا، جو 37,650 روپے تھا اور ستمبر کا رئیس صاحب کے حصے کا خرچہ بھی عثمان کے کھاتے میں ڈال دیا گیا، جو 37,650 روپے ہے، الغرض یہ سارے اخراجات نکال کر عثمان کو باقی رقم (258,325) واپس کی جائے گی۔ حالانکہ عثمان اِس پر راضی نہیں ہے، اور اُس کا مطالبہ ہے کہ اسکول میں ابھی تک انویسٹمنٹ ہی کی جا رہی ہے، نفع و نقصان کا مرحلہ نہیں آیا، تو کس بنیاد پر میرا لگا ہوا سرمایہ کاٹا جا رہا ہے؟

رہنمائی فرمائیں کہ شریعت کی رُو سے عثمان اِس شرکت کے معاملے سے کیسے الگ ہوگا اور رقم کی ادائیگی کی کیا صورت ہوگی، جبکہ شرکت کے کوئی اور خاص اُصول و ضوابط بھی طے نہیں ہوئے تھے۔

تنقیح: سائل نے بذریعہ فون یہ بتایا ہے کہ شرکت قائم کرتے ہوئے تمام شرکاء نے آپس میں کوئی اُصول و ضوابط طے نہیں کیے تھے، صرف نفع و نقصان کا فیصدی حصہ سرمایہ کے مطابق زبانی طے ہوا تھا، اور سب کی حیثیت برابر تھی، اسکول میں ہونے والی سرگرمیوں سے تمام شرکاء واقف اور رضامند تھے اور عثمان نے احسن صاحب سے زبانی جو معاہدہ کیا تھا، اُس سے بھی دیگر شرکاء واقف اور راضی تھے، البتہ اب چونکہ عثمان شرکت کا معاملہ ختم کر رہا ہے، تو دیگر شرکاء کا عثمان کے سرمایہ میں اُس سے اختلاف ہو رہا ہے، اور وہ  یہ ہے کہ عثمان نے درمیانِ شرکت میں جو اخراجات (525,150 روپے) کیے ہیں، اُس کا کہنا ہے کہ ان اخراجات کو بھی میرے سرمایہ (3 لاکھ) میں شامل ہونا چاہیے، کیونکہ ابھی تک خرچہ اور آمدنی کا مساوی مرحلہ (break-even-point) نہیں آیا ہے، لہٰذا وہ 3 لاکھ سرمایہ کے ساتھ درمیانِ شرکت کے اخراجات بھی واپس لینے کا حقدار ہے، جبکہ دیگر شرکاء اُس اخرجات کو نقصان شمار کر رہے ہیں، لہٰذا وہ سب عثمان کو صرف 3 لاکھ سرمایہ واپس کرنے پر متفق ہیں۔

ان وضاحت کی روشنی میں درجِ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

1. مذکورہ مسئلہ میں طے شدہ نفع و نقصان کی تقسیم کا کیا حکم ہے؟

2. شرکت کے اخراجات کی تقسیم کا طریقۂ کار کیا ہے؟

3. ایک شریک کی طرف سے شرکت ختم کرنے کا کیا حکم ہے؟

4. ایک شریک کو تنخواہ پر ایڈمن رکھنے کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

· واضح رہے کہ جب چند لوگ آپس میں مل کر خدمات یعنی اعمال کی ذمہ داری مشترک طور پر قبول کرنے کا عقد کرتے ہیں، تو فقہ کی اصطلاح میں اِس کو "شرکتِ اعمال" (Service Partnership) کہا جاتا ہے۔ اور شرکتِ اعمال میں نفع و نقصان بانٹنے کا اُصول یہ ہےکہ نقصان ہمیشہ ضمانِ عمل یعنی ہر شریک کے لیے طے شدہ کام کی مقدار کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا، اور اگر اِس کے خلاف کوئی شرط لگائی جائے تو وہ شرط کالعدم شمار ہوگی۔ اِس کے برخلاف نفع کی تقسیم شرکاء باہمی رضامندی سے فیصدی حصے میں جیسے چاہیں (عمل سے کم، برابر یا زیادہ) متعین کرسکتے ہیں۔

· مزید یہ کہ شرکتِ اعمال میں مطلوبہ کام انجام دینے کے لیے اگر کچھ اثاثہ جات (Infrastructure) کی ضرورت ہو، تو شرکاء مل کر اُس کے لیے سرمایہ لگا سکتے ہیں، اور اُن اثاثوں میں ہر شریک اپنے لگائے ہوئے سرمایہ کے بقدر حصے کا مالک ہوگا۔

· البتہ شرکتِ اعمال کو جاری رکھنے کے لیے ضروریات پر جو کچھ خرچہ کیا جاتا ہے، وہ درحقیقت "اخراجات" شمار ہوتے ہیں، لہٰذا وہ سب شرکاء کے ضمانِ عمل یعنی طے شدہ کام کی مقدار کے اعتبار سے تقسیم ہوتا ہے۔

· نیز شرکتِ اعمال میں کسی شریک کا تنخواہ پر کام کرنا جائز نہیں ہے۔

· اسی طرح اگر کوئی شریک یک طرفہ طور پر عقدِ شرکت کو فسخ کرنا چاہے تو اِس شرط کے ساتھ فسخ کرسکتا ہے کہ دوسرے شرکاء کو اس کا علم ہو۔

1. ان تمہیدات کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں خدمات کی فراہمی کے اِس کاروبار کے انتظام میں تمام شرکاء کی حیثیت برابر درجے کی تھی، اِس لیے یہ عقد شرعاً "شرکتِ اعمال" ہے، اور شرکاء کا نفع و نقصان میں برابری کی شرط لگانا درست ہے، لہٰذا شرکاء کے درمیان طے شدہ شرط کے مطابق نفع و نقصان کو تقسیم کیا جائے گا۔

2. عثمان نے اپنی شرکت کے آغاز میں جو سرمایہ اثاثہ جات (Infrastructure) کے لیے لگایا تھا، تو اُن اثاثہ جات میں سرمایہ کے بقدر اُس کی ملکیت ہے، لہٰذا شرکت سے نکلنے کے وقت دیگر شرکاء اُس کے حصہ کے اثاثہ جات کو مارکیٹ ریٹ پر خرید کر عثمان کو نقد ادا کریں گے۔ لیکن وہ خرچہ جو عثمان نے شرکتِ اعمال کو جاری رکھنے کے لیے ضروریات پر کیا تھا، مثلاً: اساتذہ کی تنخواہ، بجلی کا بل، اسکول کا کرایہ وغیرہ جس کو عام زبان میں Operating Expenses کہا جاتا ہے، وہ عثمان پر اُس کے ضمانِ عمل (یعنی اُس کے لیے طے شدہ کام کی مقدار جوکہ 20 فیصد ہے) کے مطابق برداشت کرنا لازم ہوگا، چونکہ مذکورہ مسئلہ میں ابھی تک نفع کا مرحلہ نہیں آیا ہے، لہٰذا اب تک جو انتظامی خرچہ ہوا ہے، اُس سارے کو نقصان قرار دیا جائے گا۔ لیکن یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ تمام شرکاء نے مل جل کر جو بھی اخراجات کیے ہیں، اُن سب کا 20 فیصد حصہ عثمان کے کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ البتہ رئیس صاحب کے حصے کے اخراجات عثمان کے کھاتے میں ڈالنا درست نہیں ہے۔

3. عثمان نے جب (10 ستمبر 2022ء میں) دوسرے شرکاء کو اطلاع دے کر شرکت کا معاملہ برقرار رکھنے سے معذرت کرلی تھی، اُس وقت سے اُس کی شرکت ختم ہوچکی تھی، لہٰذا باقی شرکاء کا جنوری 2023ء تک کے اخراجات میں عثمان کو شامل سمجھنا درست نہیں ہے۔

4. عثمان کا بحیثیت ایڈمن تنخواہ پر کام کرنے کا معاملہ شرعاً جائز نہیں تھا، لہٰذا وہ اُس عرصے کی تنخواہ کا حقدار بھی نہیں ہے، لہٰذا جو رقم انہوں نے تنخواہ کی مد میں لی ہے، وہ ان کے سرمایہ سے مِنہا (Minus) کی جائے گی۔

حوالہ جات
المجلة (ص:267):
"شركة الأعمال عبارة عن عقد شركة على تقبل الأعمال، فالأجيران المشتركان يعقدان الشركة على تعهد والتزام العمل الذي يطلب ويكلف من طرف المستأجرين، سواء كانا متساويين أو متفاضلين في ضمان العمل، يعني سواء عقدا الشركة على تعهد العمل وضمانه متساويا، أو شرطا ثلث العمل مثلا لأحدهما والثلثان للآخر."
المجلة (ص:268):
"يقسم الشركاء الربح بينهم على الوجه الذي شرطوه، يعني إن شرطوا تقسيمه متساويا يقسموه متساويا، وإن شرطوا تقسيمه متفاضلا، كالثلث والثلثين مثلا، يقسم حصتين وحصة ... إذا شرط التساوي في العمل والتفاضل في الكسب، كان جائزا، مثلا: إذا شرط الشريكان أن يعملا متساويين وأن يقسما الكسب حصتين وحصة، كان جائزا."
المعايير الشرعية (ص:336):
"إذا اقتضت شــركة الأعمال توافر موجــودات ثابتة (مثل المعدات، أو الأدوات) فيجوز أن يقدم كل طرف ما يحتاج إليه مع بقاء ما يقدمه ً مملوكا له، أو شــراءذلك من أموال الشــركاء ً مملوكا له، أو شــراء ذلك من أموال الشــركاء على أساس شركة الملك. كما يجوز تقديم الموجودات الثابتة من أحد أطراف الشركة بأجرة تسجل مصروفات على الشركة."
المجلة (ص:268):
"إذا تلف أو تعيب المستأجر فيه بصنع أحد الشريكين، فيكون ضامنا بالإشتراك مع الشريك الآخر، والمستأجر يضمن ماله أيا شاء منهما، ويقسم هذا الخسار بين الشريكين على مقدار الضمان، مثلا: إذا عقدا الشركة على تقبل الأعمال وتعهدها مناصفة، فيقسم الخسار أيضا مناصفة، وإذا عقدا الشركة على تقبل الأعمال وتعهدها ثلثين وثلثا، يقسم الخسار أيضا حصتين وحصة."
رد المحتار (17/122):
"(و) تبطل أيضا (بإنكارها) وبقوله: لا أعمل معك. فتح. (وبفسخ أحدهما) ولو المال عروضا، ... ويتوقف على علم الآخر لأنه عزل قصدي."
المبسوط للسرخسي (11/287):
"قال: والشريكان في العمل إذا غاب أحدهما أو مرض أو لم يعمل وعمل الآخر، فالربح بينهما على ما اشترطا؛ لما روي أن رجلا جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أنا أعمل في السوق، ولي شريك يصلي في المسجد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك بركتك منه». والمعنى أن استحقاق الأجر بتقبل العمل دون مباشرته والتقبل كان منهما وإن باشر العمل أحدهما."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

23/رجب الخیر/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب