021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آیات اور احادیث کا مفہوم سمجھانے کے لئے گونگے بہرے لوگوں کے لئے اشارات وضع کرنےکا حکم۔
61532جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

میں سماعت سے معذور ایک مسلمان ہوں اور اپنے سماعت سے محروم بھائیوں اور بہنوں کے لیے عربی کو متعارف کرانا چاہتا ہوں،جس میں سب سے پہلے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی مناسبت اپنے مسلمان بہن بھائیوں میں پیدا کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ عربی زبان نہ سمجھنے کی وجہ سے اللہ پاک کے احکام اور احادیث مبارکہ کے انوار و برکات سے محروم نہ رہیں۔ اس کے لئے میں عربی زبان کے اصل لفظ کو تو ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہوں لیکن اس کے معانی اور مفاہیم کو اپنے اشاروں کی زبان میں عربی لفظ کی مناسبت سے لانا چاہتا ہوں اور اس کے لئے اشاروں کو ترتیب دے رہا ہوں۔ مثال کے طور پر اذکارنماز میں ثناء جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں سماعت سے محروم افراد اس کی قرات نہیں کرسکتے۔ اور آپ حضرات کے دئے گئے ایک فتویٰ کے مطابق قرات ہم پر واجب بھی نہیں ہے۔ ہم میں سے بہت سے افراد عربی الفاظ سیکھنے کی بھی کوشش کرتے ہیں اور کافی حد تک سیکھ بھی لیتے ہیں۔ لیکن میرا مقصد یہ ہے کہ جب کوئی سماعت سے محروم نماز کے لئے کھڑا ہو تو ثناء کے اگر الفاظ عربی میں یاد ہوں تو اپنی استطاعت کے مطابق ان کو بھی ادا کرے۔ لیکن جو ثناء کے اندر مفہوم پایا جارہا ہے جو ہر ہر لفظ کا مطلب اور معنیٰ ہے وہ میرے بنائے گئے اشاروں میں اس کے تصور اور خیالات میں رہے۔ تاکہ وہ دنیا کے خیالات سے نماز میں بچ سکے۔ مختصر یہ کہ میرا مقصد اشاروں کی زبان میں عربی الفاظ کا تعارف اور پہچان کرانا ہے۔اس کے لئے مختلف اسلامی ممالک کی عربی اشاروں کی زبانوں کا مطالعہ کیا اور جو اشارے بین الاقوامی معیار کے مطابق تھے ان اکٹھا کیا گیا۔ پھر ان اشاروں کا مشاہدہ کیا اور جن اشاروں کا زاویہ تسلی بخش نہیں لگا ہمارے ڈیف سائن لینگونج رسیرچ گروپ نے ان کو نئے سرے سے بنایا یا ان میں ردوبدل کیا جن عربی الفاظ کے اشارے موجود نہ تھے ان کی جگہ پاکستانی اشاروں کی زبان استعمال کی گئی اور ہماے اشاروں کی تصاویر میں مفتیان کرام کی رہنمائی سے شرعی حدود کی مکمل رعایت کی گئی ہے اور الحمدللہ ہمارے تصویری خاکوں میں کوئی شرعی خرابی نہیں ہے۔ میں اشاروں کی زبان میں عربی الفاظ کے اشارے ترتیب دے رہا ہوں اور اس کے لئے علماء کرام اور مفتیان کرام کی رہنمائی لیتا رہتا ہوں۔میں آپ حضرات کے سامنے اپنے بنائے گئے اشاروں کی ایک مثال بھی پیش کرتا ہوں تاکہ میرا مقصد سمجھنے میں آسانی ہو۔ جیسا کہ مسجد میں داخل ہونے کی دعا ہے ’’اللھم افتح لی ابواب رحمتک‘‘ تو اس میں میرا اشارہ اللھم کے لئے آسمان کی طرف اشارہ کرکے لفظ اللہ کو بتارہاہے۔ اور چونکہ عام تصور میں اللہ پاک آسمان پر ہیں تو اس کے لئے اشارہ آسمان کی طرف ایک انگلی اٹھا کر کیا۔ اور اے کا اشارہ نہایت ادب کے ساتھ کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کو کیا۔’’افتح‘‘ پہلے درخواست، عرض کا اشارہ کیا اور پھر کھولنے کا اشارہ کیا تاکہ ادب ملحوظ رہے۔’’لی‘‘ میں پہلے لام کا اشارہ بتایا پھر ی ضمیر متکلم کا اشارہ متکلم نے اپنی انگلی کے ذریعے اپنی طرف کیا۔’’ابواب‘‘ دروازے کا اشارہ کیا۔’’رحمتک‘‘۔ رحم۔ تیری طرف سے تینوں اشاروں کو یکجا کرکے کیا۔ آپ اس دعا کے اشاروں کو اس ورق کے ساتھ منسلک کئے گئے صفحہ پر ملا خطہ فرماسکتے ہیں۔ اب مجھے کچھ حضرات کے اشکالات کا سامنا ہے اور وہ اشکالات سوالات کی صورت میں آپ کے پیش خدمت ہیں۔ امید ہے تسلی بخش جوابات سے مستفید فرمائیں گے۔ 1. نماز میں دنیا کے خیالات آتے رہتے ہیں ان سے بچنے کے لئے ثناء، سورۃ فاتحہ یا کسی بھی سورۃ کو عربی زبان کے اشاروں میں سوچنے اور ذہین میں لانا جائز ہوگا یا نہیں اور مستحق ثواب ہوں گے یا نہیں؟ 2. نماز کے اندر قیام، رکوع، سجدہ۔ التحیات وغیرہ میں اذکار نماز کے بجائے ان کے بنائے گئے اشاروں کو تصور میں لانا یا سوچنا جائز ہوگا یا نہیں اور مستحق ثواب ہوں گے یا نہیں؟ 3. تسمیہ کے بنائے گئے اشاروں کو کرنے سے تسمیہ پڑھنے کے برابر اجرو ثواب و برکات ملیں گے یا نیہں؟ 4. بالفرض قرآن کریم یا احادیث مبارکہ کے مفہوم و مطالیب کو اشاروں کی زبان میں بنانا یا ادا کرنا جائز ہے۔ تو یہ اشارے بنانے کے لئے یا سیکھنے سکھانے کے لئے کون سے قواعد اور ضوابط کو اختیار کرنا ہوگا۔ 5. بالفرض اشاروں میں قرآن پاک یا احادیث مبارکہ بنانا جائز ہے تو بنانے والوں میں کیا اہلیت درکار ہوں گی۔ مفتی ہو یا عالم دین ہو۔ یا کوئی بھی ڈیف اپنے ترجمان کی مدد سے علماء کرام یا مفتیان کرام سے مشورہ لیتے ہوئے بناسکتا ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

3,2,1۔ سماعت سے محروم افراد کانماز میں خشوع حاصل کرنے کے لئے تسمیۃ، رکوع و سجود کی تسبیحات یا قرآنی آیات اور سورتوں کامفہوم اس طرح کےاشاروں کے ذریعے ذہن میں لانا بالکل جائز ہےبشرطیکہ ایسا شخص اُمّی (ان پڑھ)ہونے کی بنا پر تحریری طور پر ان کو نہ سمجھتا ہو، البتہ اگر وہ پڑھنا جانتا ہو تو اس کو چاہئے کہ الفاظ کو ذہن میں لا کر ان کے معانی میں غور کرے،کیونکہ مقصد اور معانی پر جس طرح خطوط (الفاظ وغیرہ)دلالت کرتے ہیں اسی طرح اشارات بھی دلالت کرتے ہیں، لہذاجو شخص الفاظ کو ذہن میں لا کرمعانی پر غور کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہواس کے لئےاشاروں کے ذریعے مقصد تک پہنچنا نہ صرف جائز بلکہ خشوع کے حصول کے لئے مستحسن ہے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ توجہ کا مرکز اشارے ہوں نہ کہ وہ شخص جو اشارے سے ان الفاظ کی تعبیر کر رہا ہے۔ چونکہ یہ کام ایک جائز مقصد کے لئے ایک جائز طریقے سے کیا جا رہا ہے تو اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ثواب کی قوی امید رکھنی چاہئے۔ فی شرح القواعد الفقهية (ص: 141): "وتكون(أی :الدلالۃ) لفظية وغير لفظية، وكل منهما ثلاثة أقسام: وضعية، وعقلية، وطبيعية ۔۔ وغير اللفظية الوضعية: كدلالة الدوال الأربع على مدلولاتها(خطوط ، عقود، نصب، اشارات)۔" 4۔ اشارات معین کرنے کے لئےکوئی خاص ضوابط تو نہیں ، البتہ ان کی ترتیب میں الاہم فالاہم کااصول مد نظر رکھا جائے، مثلاً: پہلی کوشش میں پاکی ناپاکی، جائز و ناجائز اور حلال و حرام کے ان احکام کے اشارات بنا کر ایسے لوگوں کو سکھائے جائیں جن احکام کا جاننا ہر مسلمان مردوعورت پر لازم ہے۔اس کے بعد قرآن و حدیث کے دوسرے مضامین کو سکھانے کے لئے اشارات بنائے جائیں۔ نیز مندرجہ ذیل اصول پیشِ نظر رکھا جائے: ذاتِ باری تعالیٰ، انبیاء علیھم السلام اور مقدس مفاہیم کے لئے حتی الوسع ایسے اشارات بنائے جائیں جن میں تعظیم بھی نمایاں ہو اور وہ اشارات کسی دوسرے ایسے اشارے کے بھی تقریبی مماثل نہ ہوں جو کم تر مفاہیم کے لئے بنائے گئے ہوں۔ 5۔ مفتی یا عالم ِ دین گونگے بہرے لوگوں کے لئے استعمال ہونے والے اشارات سے عام طور پر بالکل ناواقف ہوتے ہیں، وہ اس میں مہارت نہیں رکھتے، اس لئے یہ تو ضروری نہیں کہ اشارے بنانے والا کوئی عالمِ دین یا مفتی ہو، البتہ یہ ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کے احکام اور مسائل کو سمجھانے کے لئے اشارات بناتے وقت تفصیلی طور پر مفتیانِ کرام سے راہنمائی لی جائے کہ سب سے پہلے کن احکام کا جاننا ان لوگوں کے لئے ضروری ہے ؟تا کہ ان اشارات کو پہلے بناکر سکھایا جائے۔
حوالہ جات
فی سنن أبي داود (5/ 177، دارالرسالۃ العالمیۃ): "عن أبي هريرة: أن رجلا أتى النبي -صلى الله عليه وسلم- بجارية سوداء، فقال: يا رسول الله، إن علي رقبة مؤمنة، فقال لها: "أين الله؟ " فأشارت إلى السماء بإصبعها، فقال لها: "فمن أنا؟ " فأشارت إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- وإلى السماء، يعني أنت رسول الله، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "أعتقها فإنها مؤمنة"۔ فقط
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمران مجید صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب