021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
آن لائن اپلیکیشن پر پیسے لگانا(جی ٹی ایم (GTM) ایپ کا حکم)
81641اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

سوال:  پلے اسٹور پر ایک ایپلکیشن ہے جی ٹی ایم کےنام سے جس میں پانچ ہزار  سے پندرہ ہزار  مخصوص رقم طے کی ہوئی ہے ایپلکشن والوں نے کہ اتنے پیسے لگا سکتے ہیں، اس سے کم زیادہ نہیں ۔ اور پانچ ہزار پر ہر مہینہ 6 ہزار روپے دیتے ہیں۔  پیسے اس شرط پر دیتے ہیں کہ وہ ہر روز ایک ٹاسک دیتے ہیں جس میں یو ٹیوب کی پانچ ویڈیوز دیکھنی ہوتی ہیں،   ویڈیوز کولائک کرنا ہوتا ہے اور اس چینل کو سبسکرائب کر کے سکرین شارٹ لے کر انہیں بھیجنا ہوتا ہے۔  وہ اس ایک ویڈیو کے ٹاسک پر 40 روپے دیتے ہیں جو ہر روز کے 200 روپے بنتے ہیں اور مہینے کے چھ ہزار روپے بنتے ہیں۔ اگر کام نہیں کریں گے تو پیسے نہیں ملتے۔ کام کرنے پر پیسے دیتے ہیں اور چھ مہینے بعد 5000 ہزار جو شروع میں لگائے تھے وہ واپس کر دیتے ہیں۔  مفتیان کرام آیا  یہ پیسے اور کمائی ہمارے لیے حرام ہو گی یا حلال؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور کام میں مندرجہ ذیل مفاسد پائے جاتے ہیں:

1.     ویڈیوز، تصاویر وغیرہ دیکھنے کا کام اجارہ (ملازمت) کا فعل ہے جس میں دیکھنے والے کو ویڈیو یا تصویر دیکھنے کی اجرت دی جاتی ہے۔ یہ کوئی ایسی منفعت نہیں جو اصلاً مقصود ہو اور شرعاً اس کی اجرت لی جا سکے۔ اس کے برعکس یہ کام جعل سازی کے لیے اکثر استعمال ہوتا ہے، مثلاً فیس بک اور یوٹیوب چینل پر غلط طریقے سے ویورز لا کر یو ٹیوب، گوگل ایڈسینس اور اشتہار دینے والی کمپنیوں کو بھی دھوکہ دیا جاتا ہے۔ لہذا شرعاً یہ کام کرنا اور اس کی اجرت لینا درست نہیں ہے۔

2.     یہ ویڈیوز، تصاویر وغیرہ دیکھنے کے کام کے لیے  رقم قرض دی جاتی ہے اور اس قرض کی بنیاد پر اجارے کا حق ملتا جو شرعاً سود بنتا ہے۔

مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں ان ویڈیوز اور تصاویر کے لیے انویسٹمنٹ کرنا اور انہیں دیکھنا درست نہیں ہے  اوراس کی اجرت بھی شرعاً درست نہیں ہے۔ نیز اس کام میں مزید ممبر بنانا بھی جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات
قال الحصكفي ؒ: "وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية."
علق عليه ابن عابدين ؒ: "(قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء، بخلاف ما سيذكره فإنه وإن كان مقصودا للمستأجر لكنه لا نفع فيه وليس من المقاصد الشرعية، وشمل ما يقصد ولو لغيره لما سيأتي عن البحر من جواز استئجار الأرض مقيلا ومراحا، فإن مقصوده الاستئجار للزراعة مثلا، ويذكر ذلك حيلة للزومها إذا لم يمكن زرعها تأمل."
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 6/4، ط: دار الفكر)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

03/ ربیع الثانی 1445ھ 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے