021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پی ایس او ڈیجی کیش کارڈ( PSO DIJI CASH CARD, pso diji cash card) پر ملنے والے پوائنٹ اور کیش بیک کا حکم
82189خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

PSOنے DIGICASH  کارڈ متعارف کرایا ہے جو ڈیبٹ کارڈ کی طرح ہوتا ہے۔  ابتدا ء پانچ سو روپے دے کر خریدنا پڑتا ہے اور پھر اس میں بیلنس ڈلتا ہے۔ اصل میں یہ بات  پوچھنی ہے کہ جب بھی ڈیجی کیش کارڈ کی مدد سے پی ایس او کی کوئی  پروڈکٹ خریدی جاتی ہے، تو وہ کچھ پوائنٹ دیتے ہیں،  مثلا: ۱۰۰ روپے کا پٹرول خریدنے پر ایک پوائنٹ ملتا ہے، اس پوائنٹ کی قیمت پچاس پیسے ہوتی ہے، اگر ہزار کا پٹرول ڈلوایا تو  ۱۰ پوائنٹ ملیں گے جو پانچ روپے کے برابر ہوتے ہیں ۔ کیا ان پوائنٹ کا استعمال درست ہے؟ اسی طرح کمپنی کی طرف سے آفر آتی رہتی ہے کہ  اگر فلاں تاریخ      تک کسی نے اتنے کا پٹرول ڈلوایا تو اس کو اتنے کیش بیک ملیں گے، یعنی اگر کسی نے اس مہینے۵۰۰۰ کا پٹرول ڈلوایا تو اس کو ۱۵۰ روپے ملیں گے۔ اس کا حکم بھی بتادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ان  پوائنٹس اور کیش بیک دونوں کا استعمال کر نا درست ہے،کیونکہ جب پی ایس او سے پٹرول  وغیرہ خریدا  جاتا ہے تو یہ معاملہ حقیقت میں اس قیمت پر ہوتا ہے جو  ان پوائنٹس کی رقم منفی کرنے کے بعد بچتی ہے۔  اسی طرح کیش بیک درحقیقت معاملہ مکمل ہونے کے بعدقیمت میں کمی ہے جسے وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

حوالہ جات
قال العلامة الكاساني رحمه الله: فأما إذا كانت في الثمن ...فإن كانت في قدره بأن تواضعا في السر والباطن على أن يكون الثمن ألفا ويتبايعان في الظاهر بألفين فإن لم يقولا عند المواضعة: ألف منهما رياء وسمعة فالثمن ما تعاقدا عليه؛ لأن الثمن اسم للمذكور عند العقد، والمذكور عند العقد ألفان، فإن لم يذكرا أن أحدهما رياء وسمعة صحت تسمية الألفين، وإن قالا عند المواضعة: ألف منهما رياء وسمعة فالثمن ثمن السر، والزيادة باطلة في ظاهر الرواية عند أبي حنيفة، وهو قول أبي يوسف ومحمد. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:5/ 177)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله: والغرض الآن بيان الإنشاء المحتمل للفسخ كالبيع وهو ثلاثة أقسام؛ لأنه إما أن يكون الهزل في أصل العقد، أو في قدر الثمن، أو جنسه... وإن كان ذلك أي: ‌المواضعة ‌في ‌القدر: أي بأن اتفقا على الجد في العقد بألف لكنهما تواضعا على البيع بألفين على أن أحدهما هزل، فإن اتفقا على الإعراض عن المواضعة كان الثمن ألفين؛ لبطلان الهزل بإعراضهما، وإن اتفقا على أنه لم يحضرهما شيء من البناء والمواضعة أو اختلفا فالهزل باطل والتسمية للألفين صحيحة عنده، وعندهما العمل بالمواضعة واجب ،والألف الذي هزلا به باطل، لما مر أن الأصل عنده الجد، وعندهما المواضعة.وإن اتفقا على البناء على المواضعة فالثمن ألفان عنده. (رد المحتار:5/ 274)
في الفتاوى الهندية: وإن كانت التلجئة في البدل: بأن تواضعا في السر أن الثمن ألف إلا أنهما يتبايعان بألفي درهم في العلانية ليكون أحد الألفين سمعة. فإن تصادقا على الإعراض عن تلك المواضعة فالبيع جائز بألفي درهم، وإن تصادقا على أنهما بنيا على تلك المواضعة فعلى قول أبي يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى  البيع جائز بألف درهم وهو إحدى الروايتين عن أبي حنيفة  رحمه الله تعالى. (الفتاوى الهندية:5/ 50)
قال العلامة العثماني حفظه الله: يجوز للمتبائعين أن يتفقا على الزيادة أو الحط في الثمن بعد إنجاز العقد، كما يجوز أن يتفقا على الزياده في المبيع. وإن الزيادة والحط يلحقان بأصل العقد عند الحنفية، كأن البيع وقع على القدر الحاصل بعد الزيادة أو الحط. (فقه البيوع:769/2)

عبدالہادی

دارالافتاء، جامعۃالرشید، کراچی

06جمادی الاخری1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالهادى بن فتح جان

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے