82991 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے جدید مسائل |
سوال
ہم نے مکان کے لیے 5لاکھ روپے پگڑی دےکر مکان کو قبضہ میں لیا اور 500روپے ہر مہینے کرایہ دینا ہوتا ہے۔ اب ہم اگر یہ مکان دوسرے کرایہ دار کو کرایہ پر دیتے ہیں تو اس سے ہمیں 5ہزار روپےکرایہ ملتا ہے ،اب ایسی صورت میں ایک کرایہ دار کا آگے دوسرے کو مکان کرایہ پر دینا کیسا ہے؟ شرعی اعتبار سے رہنمائی فرماکر مشکور و ممنون فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
پگڑی کا معاملہ شرعاجائز نہیں ہے۔البتہ اس کی صحیح صورت یہ ہو سکتی ہے کہ مالک مکان یا دکان جتنی قیمت لینا چاہے وہ لے کر خریدار کے نام منتقل کروا دے،اور اس کو مکمل طور پر مالکانہ اختیار حاصل ہوجائیں،اور بیچنے والے کا اس سے کوئی تعلق نہ رہے۔ کرایہ پر مکان لے کر آگے کسی اور کو اتنی ہی رقم پر دیا جائے جتنی رقم پر خود لیا ہے تو جائز ہے۔زائد رقم لینا درست نہیں۔البتہ اگر اس مکان میں کسی چیز کا اضافہ کیا ہوتو کرائے میں زائد رقم لینا جائز ہو گا ورنہ نہیں۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمه الله تعالى:وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة.......قوله: (لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك، ولا يجوز الصلح عنها.(رد المحتار:4/ 518) قال العلامۃ ابن عابدین رحمه الله تعالى: قوله:( للمستأجر أن يؤجر المؤجر إلخ) أي ما استأجره بمثل الأجرة الأولى أو بأنقص، فلو بأكثر تصدق بالفضل.( رد المحتار:6/ 91) قال العلامة برهان الدين رحمه الله تعالى:قال محمد رحمه الله: وللمستأجر أن يؤاجر البيت المستأجر من غيره، فالأصل عندنا: أن المستأجر يملك الإجارة فيما لايتفاوت الناس في الانتفاع به؛ وهذا لأنّ الإجارة لتمليك المنفعة والمستأجر في حق المنفعة قام مقام الآجر، وكما صحت الإجارة من الآجر تصح من المستأجر أيضاً فإن أجره بأكثر مما استأجره به من جنس ذلك ولم يزد في الدار شيء ولا أجر معه شيئاً آخر من ماله مما يجوز عند الإجارة عليه، لاتطيب له الزيادة عند علمائنا رحمهم الله.(المحيط البرهاني:7/ 429) قال جمع من العلماءء رحمهم الله تعالى:وَإِذَا اسْتَأْجَرَ دَارًا وَقَبَضَهَا ثُمَّ آجَرَهَا ،فَإِنَّهُ يَجُوزُ إنْ آجَرَهَا بِمِثْلِ مَا اسْتَأْجَرَهَا أَوْ أَقَلَّ ، وَإِنْ آجَرَهَا بِأَكْثَرَ مِمَّا اسْتَأْجَرَهَا فَهِيَ جَائِزَةٌ أَيْضًا إلَّا إنَّهُ إنْ كَانَتْ الْأُجْرَةُ الثَّانِيَةُ مِنْ جِنْسِ الْأُجْرَةِ الْأُولَى فَإِنَّ الزِّيَادَةَ لَا تَطِيبُ لَهُ وَيَتَصَدَّقُ بِهَا ، وَإِنْ كَانَتْ مِنْ خِلَافِ جِنْسِهَا طَابَتْ لَهُ الزِّيَادَةُ وَلَوْ زَادَ فِي الدَّارِ زِيَادَةً كَمَا لَوْ وَتَّدَ فِيهَا وَتَدًا أَوْ حَفَرَ فِيهَا بِئْرًا أَوْ طِينًا أَوْ أَصْلَحَ أَبْوَابَهَا أَوْ شَيْئًا مِنْ حَوَائِطِهَا طَابَتْ لَهُ الزِّيَادَةُ ، وَأَمَّا الْكَنْسُ ،فَإِنَّهُ لَا يَكُونُ زِيَادَةً وَلَهُ أَنْ يُؤَاجِرَهَا مَنْ شَاءَ إلَّا الْحَدَّادَ وَالْقَصَّارَ وَالطَّحَّانَ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِمَّا يَضُرُّ بِالْبِنَاءِ وَيُوهِنُهُ، هَكَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ". ( الفتاوى الهندية:4/ 425)
ہارون عبداللہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
20 رجب1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ہارون عبداللہ بن عزیز الحق | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |