021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مکان کےبدلےدوسری جگہ تعمیرکرناطےہوا،لیکن  تفصیل اورقیمت طےنہیں کی توکیاحکم ہے؟
83490خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

مسئلہ یہ ہےکہ تین بھائیوں کی اولاد نے مکان و جائیداد تقسیم کی، ایک بھائی کی صرف بیٹیاں تھیں، اس کے حصے میں جو مکان آیا، اس کے عقب میں بر لب سڑک ایک حجرہ بھی شامل تھا، کچھ عرصہ بعد ایک بھائی کا بیٹا جو کہ اپنے چچا کاداماد بھی تھا،اپنی زوجہ کے ہمراہ چچا کے پاس گیا،اس وقت  چچی بھی موجود تھی اور کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ بیٹھک جو تیرہ مرلے پر محیط ہے، ہم اسی طرح باقی رکھیں، لہٰذا آپ یہ ہمیں دے دیں ،دوسری طرف جو آپ کی دو کنال زمین ہے، اس میں تیرہ مرلے پر ہم اس کے بدلے آپ کو مکان تعمیر کرکےدیں گے، چچااس پر راضی ہوگیا ۔

واضح رہے کہ اس وقت ایک مرلہ کی قیمت تقريبا چار لاکھ تھی، چنانچہ عمارت اور جگہ دونوں کی قیمت تقريبا  پچھترلاکھ روپے تھی، کچھ عرصہ گزرنے کے باوجود جب انہوں نے مکان وغیرہ نہیں بنوایا تو چچا نے دیوار تعمیر کردی کہ میں اس حجرہ کو گھر میں شامل کروں گا ،بھتیجا دوبارہ آیااور کہا کہ اب ہم ضرور مکان بنوا کر دیں گے، آپ یہ ہمیں دے دیں،چونکہ چچازندہ تھاتووہ  راضی ہو گیا،مگر  سال بعد چچا اللہ کو پیارا ہو گیا، وفات کے بھی دو سال گزر گئےہیں،ابھی تک مکان تو کیا بنیاد بھی نہیں بنی، اب جب بات زیر بحث آئی تو بھتیجا مکان بنوا کر دینا چاہتا ہے، اس وقت جو چار لاکھ کا مرلہ تھا اس کی قیمت تقريباپچھترلاکھ بنی تھی، اب مرلہ بارہ سے پندرہ لاکھ کا ہوگیاہے، تو قیمت لاکھوں سے تجاوز کرکے کروڑوں تک پہنچ گئی  ہے،لیکن چونکہ بات مکان بنوانے کی طے ہوئی تھی،اس لیے ظاہر ہے کہ مکان بنوانے پرپچھترلاکھ سے رقم زیادہ ہی لگے گی۔

سوال یہ ہے کہ کیا بھتیجا مکان بنوانے پر صرف وہی پچھتر لاکھ خرچ کرنے کا پابند ہوگا یا  اگر تعمیر پر خرچ زیادہ آئے تو جتنا بھی خرچ آئے وہ سارا ادا کرنے کا پابند ہوگا؟ برائے مہربانی شرعی حکم کی تفصیل بتا کر عند اللہ ماجور ہوں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں چونکہ جائیداد کی تقسیم وغیرہ مکمل ہوچکی تھی،اس کےبعد یہ تبادلہ کامعاملہ ہواتھا،اس لیےمذکورہ معاملہ  نئےسرےسےخریدوفروخت کامعاملہ  شمارہوگا،اوربیع میں شرعاضروری ہےکہ عقدکےوقت مبیع موجودہو،جبکہ موجودہ صورت میں ایک طرف سےتومبیع(تیارشدہ بیٹھک)موجودہے،جبکہ دوسری طرف سےمبیع عقدکےوقت موجودنہیں،لہذایہ عقد باطل ہے، اس معاملےکوختم کرناضروری ہوگا۔

مذکورہ معاملہ باطل ہونےکی وجہ سےشرعامعتبرنہیں ،اس لیے بیٹھک چچاکےانتقال کےوقت ان کے ورثہ کی ملکیت  میں منتقل ہوگئی تھی،لہذااب ان کواختیارہےکہ خودرکھیں یا کسی معلوم عوض کےبدلےفروخت کردیں۔

حوالہ جات
"الفتاوي الهندية3/2:
ومنها في المبيع وهو أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم ۔۔۔ وأن يكون مملوكا في نفسه وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه ۔۔۔ ولا بيع ما ليس مملوكا له ۔۔۔ وأما شرائط النفاذ فنوعان أحدهما الملك أو الولاية۔
"رد المحتار" 19 / 239:
( وبيع ما ليس في ملكه ) لبطلان بيع المعدوم وما له خطر العدم .
( لا بطريق السلم ) فإنه صحيح ؛ لأنه عليه الصلاة والسلام { نهى عن بيع ما ليس عند الإنسان ، ورخص في السلم }
 ( قوله لبطلان بيع المعدوم ) إذ من شرط المعقود عليه : أن يكون موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه ، وأن يكون ملك البائع فيما ببيعه لنفسه ، وأن يكون مقدور التسليم منح

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

18/شعبان   1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے