83815 | نکاح کا بیان | نکاح کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
سوال:السلام علیکم!میرا خا ندا ن سنی حنفی دیو بندی ہے- میری بیٹی سے شیعہ لڑکا شادی کرنا چاہتا ہے- ہمیں لڑکا پسند ہے،لیکن مختلف فرقہ ہونے کی وجہ سے فیصلہ کرنے سے پہلے لڑکے سے اسکے عقائد معلوم کیے ہیں، جو حسب ذیل ہیں:-
1- حضرت محمد صل اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ کے آخری نبی ہیں-
2- آج قرآن شریف مکمل اصلی حالت میں ہے-
3- حضرت عایشہ رضی اللّٰہ عنہا قابل احترام ہیں اور ان پر لگائی گئی تہمت بلکل غلط ہے-
4- پہلے تین خلیفہ رضی اللّٰہ عنہ خلیفہ تھے اور قابل احترام ہیں-
5- حضور صل اللّٰہ علیہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ پہلے امام ہیں اور معصوم ہیں اور انکے بعد آنے والے 11 امام بھی معصوم ہیں۔
6- ہر امام کے علم میں ہو تا تھا کہ اگلا امام کس کو نامزد کرنا ہےاور اسکے مطابق اگلا امام متعین کرتے تھے۔
7- یہ غلط ہے کہ امام کو فرشتے کے ذریعہ کوئی ہدایت آتی تھی-
آپ سے گذارش ہے مندرجہ بالا لڑکے کے عقائد کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ:-
1- کیا اس لڑکے سے بیٹی کا نکاح جائز ہے؟
2- اگر جائز ھے تو کیا نکا ح سنی طریقے سے ہونا ضروری ہے یا شیعہ طریقہ سے ہونے میں بھی کوئی حرج نھیں ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں اگرلڑکےکےعقائدواقعتایہی ہیں،جیسےاس نےتفصیل بتائی ہےتوچونکہ ان عقائدمیں اکثرعقائدشرعیت کےمطابق درست ہیں ،صرف ایک عقیدہ اہل سنت والجماعت کےعقائد کےخلاف ہے،یعنی ائمہ کی معصومیت کا عقیدہ رکھنا،کیونکہ اہل سنت والجماعت کےنزدیک صرف انبیاء معصوم ہیں،انبیاء کےعلاوہ امت کاکوئی فرد چاہےوہ بہت بڑاولی اللہ یا پیر ہی کیوں نہ ہو گناہوں سے معصوم نہیں ہوسکتا۔اس عقیدہ کی وجہ سےکفر کاحکم تونہیں لگایاجاتا،البتہ یہ عقیدہ گمراہ کن اور باطل ہونےکی وجہ سےاس کواختیارکرنےوالےکو گمراہ بہرحال کہاجائےگا۔
مذکورہ تفصیل کےمطابق چونکہ عقائدکفریہ نہیں ،اس لیےایسےلڑکےسےشرعانکاح کیاجاسکتاہے،البتہ جو باطل اور گمراہ کن عقیدہ ہے،علاقےکےسمجھدارمعتدل علمائےکرام سےملاقات وغیرہ کےذریعہ اس کےازالےکی کوشش کی جائے،امید ہےیہ عقیدہ بھی درست ہوجائےگا۔
اہم وضاحت:اگرلڑکےکےعقائدحقیقت میں یہ نہ ہوں،یہ عقائدصرف لوگوں کو مطمئن کرنےکےلیےلکھ کردیےہوں،حقیت اس کےبرخلاف ہو(جیساکہ شیعوں کاخاص طریقہ ہوتاہےکہ وہ اس طرح کےمعاملات میں "تقیہ" سےکام لیتےہیں)یعنی فرقہ امامیہ واثناعشریہ کےجودیگرکفریہ عقائد ہیں،حقیقت میں یہ بھی انہی عقائدکاحامل ہوتوپھرنکاح کرناشرعاجائزنہیں ہوگا۔
حوالہ جات
"المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز"1/ 197:
وأجمعت الأمة على عصمة الأنبياء في معنى التبليغ ومن الكبائر ومن الصغائر التي فيها رذيلة واختلف في غير ذلك من الصغائر والذي أقول به أنهم معصومون من الجميع وأن قول النبي صلى الله عليه وسلم إني لأتوب إلى الله في اليوم وأستغفره سبعين مرة إنما هو رجوعه من حالة إلى أرفع منها لتزيدعلومه واطلاعه على أمر الله فهو يتوب من المنزلة الأولى إلى الأخرى والتوبة هنا لغوية۔
"الفقه الأكبر " 37:
والأنبياء عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام كلهم منزهون عَن الصَّغَائِر والكبائر وَالْكفْر والقبائح وَقد كَانَت مِنْهُم زلات وخطايا القَوْل فِي الرَّسُول صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَمُحَمّد عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام حَبِيبه وَعَبده وَرَسُوله وَنبيه وَصفيه ونقيه وَلم يعبد الصَّنَم وَلم يُشْرك بِاللَّه تَعَالَى طرفَة عين قطّ وَلم يرتكب صَغِيرَة وَلَا كَبِيرَة قطّ
"فتح الباري - ابن حجر "7/ 26:
وفيه ان غير النبي ولو بلغ من الفضل الغاية ليس بمعصوم وفيه استحباب سؤال الاستغفار والتحلل من المظلوم
"مختصر الفتاوي المصرية لابن تيمية "2/ 21:
ومن ادعى العصمة لأحد في كل ما يقوله بعد الرسول صلى الله عليه وسلم فهو ضال وفي تكفيره نزاع وتفصيل۔
"حاشية رد المحتار" 3 / 50:
وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الالوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي أو كان ينكر صحبة الصديق أو يقذف السيدة الصديقة فهوكافر لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة، بخلاف ما إذا كان يفضل عليا أو يسب الصحابة فإنه مبتدع لا كافر۔
"حاشية رد المحتار" 4 / 423:
لا شك في تكفير من قذف السيدة عائشة رضي الله تعالى عنها، أو أنكر صحبة الصديقأو اعتقد الالوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو نحو ذلك من الكفر الصريح المخالف للقرآن، ولكن لو تاب تقبل توبته، هذا خلاصة ما حررناه في كتابنا تنبيه الولاة والحكام۔
"رد المحتار" 16 / 296:
اقول : نعم نقل في البزازية عن الخلاصة أن الرافضي إذا كان يسب الشيخين ويلعنهما فهو كافر ، وإن كان يفضل عليا عليهما فهو مبتدع . وهذا لا يستلزم عدم قبول التوبة .على أن الحكم عليه بالكفر مشكل ، لما في الاختيار اتفق الأئمة على تضليل أهل البدع أجمع وتخطئتهم۔
" بدائع الصنائع" 5 / 456:
( فصل ) : ومنها إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمة فلا يجوز إنكاح المؤمنة الكافر ؛ لقوله تعالى : { ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا } ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر ؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه ، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل : { أولئك يدعون إلى النار } لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر ، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار ؛ لأن الكفر يوجب النار ، فكان نكاح الكافر المسلمة سببا داعيا إلى الحرام فكان حراما ، والنص وإن ورد في المشركين لكن العلة ، وهي الدعاء إلى النار يعم الكفرة ، أجمع فيتعمم الحكم بعموم العلة فلا يجوز إنكاح المسلمة الكتابي كما لا يجوز إنكاحها الوثني والمجوسي ؛ لأن الشرع قطع ولاية الكافرين عن المؤمنين بقوله تعالى : { ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلا } فلو جاز إنكاح الكافر المؤمنة لثبت له عليها سبيل ، وهذا لا يجوز۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی
11/ذیقعدہ 1445ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |