03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
 ایک دفعہ معلق طلاق کےبعدطلاق کامیسج دو مرتبہ بھیجاتوکیاحکم ہے؟
83860طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

محترم گزارش ہے کہ میرے شوہر نے مجھے  اتوار کی صبح یہ الفاظ کہے کہ اگر تم میر ےپاس رات  کو نہیں آئی یا کبھی بد تمیزی کی تو تم کو طلاق ہو جائے گی۔ اور اسی طرح اگر اگلے ہفتے نہ آئی تو دوسری طلاق اور اس سے اگلے ہفتے نہ آئی تو تیسری طلاق پڑ جائے گی ۔ تین طلاقیں پڑ جائیں گی تواچھا ہے میری جان چھوٹ جائے گی۔ میں رات کو ان کے پاس نہیں گئی پھر صبح یہ میرے پاس آئے ،ناشتہ مانگا ،جس سےمیں نے انکار کر دیا ۔

پھررات نوبجےانہوں نےمیرےبھائی کوفون کرکےکہاکہ میں آپ کی بہن کوایک طلاق پہلےدےچکاہوں،جس کےبارےمیں میں نےبتایابھی تھا،میرےبھائی نےپوچھاکیاہواتھا؟انہوں نےبتایاکہ میں نےصبح انڈےتوڑکرپھیلائے،بھائی نےپوچھا آپ نےایساکیوں کیا توانہوں نےلائن کاٹ دی ،پھرتھوڑی دیربعد انہوں نےمیرےبھائی کو یہ الفاظ میسج  میں بھیجے"میں بھول گیا تھاکہ تم اسی کےبھائی ہو،مجھےمعاف کرنا،تمہاری ساری فیملی ایک جیسی ہے،میں تمہاری بہن کو طلاق دیتاہوں،اس کوفورامیرےگھرسےلےجاؤ"

یہ میسج انہوں نےدودفعہ بھیجا،اگلےدن ان کامیرےبھائی سےرابطہ ہوااورکہاکہ یہ میں نےآپ کو ڈرانےکےلیےکہاتھا،میری نیت ایک کی تھی،دودفعہ  میسج احتیاطا بھیجاکہ پتہ نہیں پہلامیسج پہنچاہےیا نہیں ۔

میں رجوع کرناچاہتاہوں،میں نےاکیلےمیں ہی رجوع کرلیاتھا۔

رات کو میرےبھائی اور بہن وہاں سےمجھے لےآئے،اب آپ میرےمسئلےکےبارےمیں بتائیں کہ مجھ پر کیافتوی یاحکم عائد ہوتاہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں پہلی طلاق تو معلق تھی "یعنی رات کومیرےپاس نہیں آئی تو طلاق ہوجائےگی"اس کےبعد بیوی رات میں شوہرکےپاس نہیں گئی توایک طلاق رجعی تو اس سےواقع ہوچکی ہے۔

پھرشوہرنےاپنےسالےکو اسی سابقہ طلاق سےمتعلق بتایاہے،اس لیےمزیدکوئی طلا ق واقع نہیں ہوئی ،سابقہ صرف ایک طلاق ہی ہوئی ہے۔

اس کےبعدشوہرنےاپنےسالےکومیسج کیا،جس میں ایک طلاق کا ذکرہےتویہ بھی واقع ہوگئی ہے،لہذا بیوی پردوطلاق رجعی واقع ہوچکی ہیں،اس کےبعددوبارہ رجوع بھی ہوسکتاہےاوراگررجوع نہ کیاتوعدت کےبعد دوبارہ نکاح بھی ہوسکتاہے۔

جہاں تک تیسری طلاق کا تعلق ہے توچونکہ آپ کے نمبر سے طلاق کا میسج بیوی کوموصول  ہواہے،(جوکہ تعدادکےاعتبارسےتیسری طلاق بنتی ہے) اس لیے قضاءً تو تیسری طلاق واقع ہوگئی ہے، یعنی اگر عورت عدالت سے فیصلہ کروانے کے لیے چلی جائے تو قاضی ان دومیسجز کا اعتبار کر کے تین طلاق(ایک تعلیق والی طلاق،باقی دوطلاق جومیسجزکےذریعہ دی گئی ) کے وقوع کا حکم لگائے گا اور فریقین کے لیے اس پر عمل کرنا واجب ہو گا،اس میں آپ کی نیت یا غلطی سے میسج بھیجے جانے کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، کیونکہ قاضی شرعی اعتبار سےظاہری صورتِ حال کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہوتا ہے۔

البتہ تیسری طلاق کے دیانتاً (اللہ اور بندے کے درمیان شرعی حکم) وقوع کا حکم یہ ہے کہ اگر  آپ اپنی اس بات پر حلفیہ بیان دے سکتے ہیں،(جیسا کہ  حلفیہ بیان ساتھ منسلک ہے) تو عورت آپ سے اس بات پر قسم لےلے کہ آپ نے قصداً یہ میسج نہیں بھیجا، بلکہ غلطی  سےاس شبہ میں کہ پہلامیسج پہنچا نہ ہو،دوسرامیسج بھیج دیاتھا اور عورت کو آپ کی بات پراعتمادآجائے تو اس صورت میں آپ کی بیوی پردیانتاً تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی اورآپ کی بیوی اس کے مطابق عمل کر سکتی ہے، فقہائے کرام رحمہم اللہ کی عبارات میں اس کی نظیرطلاق کے الفاظ میں سبقت لسانی یعنی بلا اختیارغلطی سے لفظِ طلاق زبان سے نکل جانے کی مذکور ہے، اس میں  فقہائے کرام رحمہم اللہ نے صراحت کی ہے کہ مخطی یعنی غلطی سے طلاق دینے والے کی طلاق قضاءً واقع ہوگی، دیانتاً نہیں ہو گی۔(ماخوذازتبویب دارالافتاءجامعۃ الرشیدفتوی نمبر  79633/62)
https://almuftionline.com/2022/02/21/9311/

حوالہ جات
"الدر المختار وحاشية ابن عابدين "3/ 241 :
(أو مخطئا) بأن أراد التكلم بغير الطلاق فجرى على لسانه الطلاق أو تلفظ به غير عالم بمعناه أو غافلا أو ساهيا - أو بألفاظ مصحفة يقع قضاء فقط، بخلاف الهازل واللاعب فإنه يقع قضاء وديانة لأن الشارع جعل هزله به جدا فتح۔
قال ابن عابدين: (قوله بأن أراد التكلم بغير الطلاق) بأن أراد أن يقول: سبحان الله فجرى على لسانه أنت طالق تطلق لأنه صريح لا يحتاج إلى النية، لكن في القضاء كطلاق الهازل واللاعب ط عن المنح، وقوله كطلاق الهازل واللاعب مخالف لما قدمناه ولما يأتي قريبا۔
وفي الفتح القدير عن الحاوي معزيا إلى الجامع الصغير أن أسدا سأل عمن أراد أن يقول زينب طالق فجرى على لسانه عمرة على أيهما يقع الطلاق؟ فقال: في القضاء تطلق التي سمى وفيما بينه وبين الله تعالى لا تطلق واحدة منهما، أما التي سمى فلأنه لم يردها، وأما غيرها فلأنها لو طلقت طلقت بمجرد النية۔
"فتح القدير للكمال ابن الهمام "4/ 5:
وفي النسفي قال أبو حنيفة: لا يجوز الغلط في الطلاق، وهو ما إذا أراد أن يقول اسق فسبق لسانه بالطلاق ولو كان بالعتاق يدين، وقال أبو يوسف: لا يجوز الغلط فيهما۔
وفي الخلاصة أيضا: قالت لزوجها: اقرأ علي اعتدي أنت طالق ثلاثا ففعل طلقت ثلاثا في القضاء لا فيما بينه وبين الله تعالى إذا لم يعلم الزوج ولم ينو، وهذا يوافق ما في المنصوري، ويخالف مقتضى ما ذكره آنفا من مسألة التلقين بالعربية، والذي يظهر من الشرع أن لا يقع بلا قصد لفظ الطلاق عند الله تعالى، وقوله فيمن سبق لسانه واقع: أي في القضاء، وقد يشير إليه قوله ولو كان بالعتاق يدين، بخلاف الهازل لأنه مكابر باللفظ فيستحق التغليظ، وسيذكر في أنت طالق إذا نوى به الطلاق من الوثاق يدين فيما بينه وبين الله تعالى مع أنه أصرح صريح في الباب ثم لم يعارض ذلك قوله ولا يحتاج إلى النية لأن المعنى لا يحتاج إلى النية: يعني اللفظ بعد القصد إلى اللفظ۔
والحاصل أنه إذا قصد السبب عالما بأنه سبب رتب الشرع حكمه عليه أراده أو لم يرده إلا إن أراد ما يحتمله. وأما أنه إذا لم يقصده أو لم يدر ما هو فيثبت الحكم عليه شرعا وهو غير راض بحكم اللفظ ولا باللفظ فمما ينبو عنه قواعد الشرع، وقد قال تعالى {لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم} [البقرة: 225] وفسر بأمرين: أن يحلف على أمر يظنه كما قال مع أنه قاصد للسبب عالم بحكمه فإلغاؤه لغلطه في ظن المحلوف عليه، والآخر أن يجري على لسانه بلا قصد إلى اليمين كلا والله بلى والله، فرفع حكمه الدنيوي من الكفارة لعدم قصده إليه، فهذا تشريع لعباده أن لا يرتبوا الأحكام على الأسباب التي لم تقصد، وكيف ولا فرق بينه وبين النائم عند العليم الخبير من حيث إنه لا قصد له إلى اللفظ ولا حكمه وإنما لا يصدقه غير العليم وهو القاضي.وفي الحاوي معزیا إلى الجامع الصغیر أن أسدا سأل عمن أراد أن يقول: زينب طالق فجرى على لسانه عمرة على أيهما يقع الطلاق، فقال في القضاء: تطلق التي سماها، وفيما بينه وبين الله تعالى لا تطلق واحدة منهما، أما التي سماها فلأنه لم يردها، وأما غيرها فلأنها لو طلقت طلقت بمجرد النية فهذا صريح۔
"فتاوى قاضيخان على الهندية":(218/1
(قوله دين) أى تصح نيته في مابينه وبين ربه تعالى؛ لأنه نوى مايحتمله لفظه فيفتيه المفتي بعدم الوقوع، أما القاضي فلا يصدّقه ويقضي عليه بالوقوع؛ لأنه خلاف الظاهر بلا قرينة۔
"المحيط البرهاني في الفقه النعماني "3/ 67:
في نكاح «المنتقى» في باب ما يبطل المهر بعقد أحد الزوجين: إذا قبل امرأة ابنه بشهوة، أو قبل الأب امرأة ابنه بشهوة وهي مكرهة، وأنكر الزوج أن يكون ذلك عن شهوة فالقول قول الزوج؛ لأنه ينكر بطلان ملكه، وإن صدقه الزوج أنه كان عن شهوة وقعت الفرقة ويجب المهر على الزوج۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

13/ذیقعدہ        1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے