021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترک مکان میں ورثہ کی حق کی تفصیل
83973تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میں ایک بیوہ عورت ہوں، میرے آٹھ بچے ہیں:پانچ بیٹیاں اورتین بیٹے،ہمارا ایک رہائشی گھر ہےجومیرے شوہرنے اپنی بڑی محنت کی کمائی سے بنایاتھا،دوفلوربنے ہوئے تھے،جب میرےشوہر کا انتقال ہوا تو میرا چھوٹا بیٹا  12سال کا تھا اوراب میرے شوہر کے انتقال کو 13سال ہوگئے ہیں،میرا بڑا  بیٹا  ہمارے گھر کے اخراجات اٹھارہاتھا،وہ ہماراواحد کفیل اورسہارا تھا،ابھی 4سال پہلے اس کا بھی انتقال ہوگیاہے، اس کے انتقال کے بعد اس کی بیوی اورمیرا پوتا گھرچھوڑکرچلے گئے ہیں،ماشاء اللہ میرا بیٹا بڑی اچھی پوسٹ پر ملازم تھا،اس نے اوپر والے گھر کورینیوکروایا اورخود اس میں رہ رہاتھا،اس کی بیوی کے جانے کے بعدمیں اس فلورمیں رہ رہی ہوں اورنیچے کا گھر میں نے کرایہ پر اٹھادیاہے جس سے میں اپناگزارہ کررہی ہوں،آپ سے یہ فتوی لینا ہے کہ

١۔میں اس فلورمیں رہتی ہوں،کیا یہ جائزہے یانہیں؟

۲۔اس گھر کا مالک کون ہے؟

۳۔اب اس فلور کو بھی کرایہ پر دے رہی ہوں ،آپ یہ بتائیں کہ اس میں میرے پوتے کا کتناحصہ ہے ؟اورابھی اس کو دینا  ضروری ہے ؟

۴۔یہ گھر میرے شوہرکا ہے ،اس مکان پر میراحق ہے یانہیں ؟ اورجو گھر میں  کرایہ  پردے رہی ہوں اس پر پوتے کا حق ہےیانہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پہلے یہ سمجھیں کہ مذکورہ  مکان میں آپ کے شوہراوربیٹے کےفوت ہونے کے بعد زندہ ورثہ کی ملکیت (دونوں میتوں کےکفن دفن کے اخراجات،قرض اگرہو اورثلث تک وصیت کے نفاذ کےبعد) درج ذیل ہے ۔

نمبرشمار

مورث اعلی سے رشتہ

فیصدی حصہ

دیگرتفصیل

1

زوجہ

14.49

شوہر اوربیٹے سے

2

بیٹا

15.91

والد سے

3

بیٹا

15.91

والد سے

4

بیٹی

7.954

والد سے

5

بیٹی

7.954

والد سے

6

بیٹی

7.954

والد سے

7

بیٹی

7.954

والد سے

8

بیٹی

7.954

والد سے

9

بہو

2.651

شوہر سے

10

پوتا

11.27

والد سے

 

100مجموعہ:

 

١۔مذکورہ مکان میں شوہراوربیٹےسےمیراث ملنے کے نتیجے میں آپ کا حصہ 14.49فیصد بنتا ہے، باقی مکان دیگرورثہ کا ہے۔دیگرورثہ جو آپ کے ساتھ نہیں رہتے جیسے بہو اورپوتا اگروہ اپنے حصوں کے کرایہ کا مطالبہ آپ سے نہ کریں تو آپ پورے گھرمیں مفت رہ سکتی ہیں اوراگروہ اپنے حصوں کے کرایہ کا مطالبہ کریں تو پھر مطالبہ کے بعد سےاگر آپ پورے گھر مٰیں رہےگی توپھر ان کے حصوں کا کرایہ آپ کو دینا ہوگا۔

۲۔اس گھر کےمالک تمام ورثہ ہیں جن کی ملکیت کی تفصیل مذکورہ بالاٹیبل سے واضح ہے۔

۳۔اوپرنیچے دونوں فلوروں میں مجموعی طورپرآپ کے پوتے کاحصہ 11.27 فیصد ہے،لہذا کرایہ میں بھی وہ اسی حساب سے شریک ہوگا،نیز آپ کے بہو کا حصہ بھی ان مکان میں 2.651 فیصدبنتاہے وہ بھی اسی تناسب سے کرایہ میں شریک ہوگی ۔کرایہ  ابھی ان کو دینا ہوگا، تاہم اگروہ آپ کے پاس رکھنے پر راضی ہوں تو آپ اپنے پاس جب تک وہ چاہیں کرایہ رکھ سکتی ہیں ۔

۴۔جی ہاں،اس مکان میں مجموعی طورپر آپ کاحصہ 14.49فیصدبنتاہےاورپوتے کاحصہ 11.27 فیصدبنتاہے جیسے کہ اوپر ٹیبل سے وضاحت ہورہی ہے۔

واضح رہےکہ آپ کے بیٹے نے زندگی میں اگراپنی ذاتی رقم سے اوپر والامکان صرف اپنے لیے رینیوکیاتھاتو اس صورت میں مکان بکنے کی صورت میں پہلے اس کی خرچ کردہ رقم نکال کر اس کے ورثہ کو  دی جائے گی اورپھر باقی میراث تقسیم ہوگی ۔

حوالہ جات
قال في كنز الدقائق :
"يبدأ من تركة الميّت بتجهيزه ثمّ ديونه ثمّ وصيّته ثمّ تقسم بين ورثته،وهم:ذو فرضٍ أي ذو سهمٍ مقدّرٍ..."  (ص:696, المكتبة الشاملة)
قال في الفتاوى الهندية:
"وهوأن يموت بعض الورثةقبل قسمة التركة كذا في محيط السرخسي وإذا مات الرجل ،ولم تقسم تركته حتى مات
بعض ورثته ......فإن كانت ورثة الميت هم ورثة الميت الأول،ولا تغير في القسمة تقسم قسمة واحدة ؛ لأنه لا فائدة في تكرار القسمة بيانه إذا مات وترك بنين وبنات ثم مات أحد البنين أو إحدى البنات ولا وارث له سوى الإخوة والأخوات قسمت التركة بين الباقين على صفة واحدة للذكر مثل حظ الأنثيين فيكتفي بقسمة واحدة بينهم وأما إذا كان في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت الأول فإنه تقسم تركة الميت الأول ، أولا ليتبين نصيب الثاني ثم تقسم تركة الميت الثاني بين ورثته فإن كان يستقيم قسمة نصيبه بين ورثته من غير كسر فلا حاجة إلى الضرب."     (ج:51,ص:412, المكتبة الشاملة)
قال اللَّه تعالى في القرأن الكريم:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ..... وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْن.... وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا...}             [النساء: 12, 11
وفی شرح المجلة:
أما أحد الشريكين إذا سكن مدة في الدار بدون إذن الأخر فيعد ساكنا في ملك نفسه فمن ثم لا يلزم الأجرة لأجل حصة شريكه ۔۔۔ولكن لو حضرالشريك الأخر وتقاضى الأجر من الشريك الساكن فسكن بعد لزمه الأجر عن حصة شريكه۔(شرح المجلة لخالد الأتاسي،الباب الأول في بيان شركة الملك،الفصل الثاني في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،المادة1075،ج4،ص17)
وفی تحفة الفقہاء:
"الشركة ‌الأملاك على ضربين أحدهما ما كان بفعلهما مثل أن يشتريا أو يوهب لهما أو يوصى لهما فيقبلاوالآخر بغير فعلهما وهو أن يرثا والحكم في الفصلين واحد وهو أن الملك مشترك بينهما وكل واحد منهما في نصيب شريكه كالأجنبي لا يجوز له التصرف فيه إلا بإذنه ."(‌‌كتاب الشركة، ج:3، ص:5، ط:دار الكتب العلمية)
وفی العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 81)
(سئل) في رجل بنى بماله لنفسه قصرا في دار أبيه بإذنه ثم مات أبوه عنه وعن ورثة غيره فهل يكون القصر لبانيه ويكون كالمستعير؟(الجواب) : نعم كما صرح بذلك في حاشية الأشباه من الوقف عند قوله كل من بنى في أرض غيره بأمره فهو لمالكها إلخ ومسألة العمارة كثيرة ذكرها في الفصول العمادية والفصولين وغيرها وعبارة المحشي بعد قوله ويكون كالمستعير فيكلف قلعه متى شاء.
وفی الأشباه والنظائر - حنفي - (ج 1 / ص 219)
كل من بنى في أرض غيره بأمره ة فالبناء لمالكها.
فی رد المحتار(6/747سعید)
کل من بنی فی دار غیرہ بامرہ فالبناء لآمرہ ولولنفسہ بلاأمرہ فھولہ ولہ رفعہ.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

 25/11/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے