021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گیسٹ پوسٹنگ کا شرعی حکم
83909اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

 السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ہم لوگ آن لائن ورک کرتے ہیں، جسے گیسٹ پوسٹنگ کہتے ہیں ، گیسٹ پوسٹنگ ایس ای او(SEO) کی ایک قسم ہے،جس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جو بندہ اپنی ویب سائٹ بناتا ہے،  اسے اس ویب سائٹ کو گوگل کے پہلے پیج پر لانے کی کوشش کرتا ہے، اس کے لیے مختلف طریقے ہیں ، ان میں سے ایک طریقہ گیسٹ پوسٹنگ کا ہے ، اس میں  ہوتا  یہ ہے کہ نیو ویب سائٹ والا ایک آرٹیکل لکھتا ہے اور اس میں اپنی ویب سائٹ کا لنک ایڈ کر دیتا ہے اور پھر اس آرٹیکل کو ایک بڑی (ہائی رینکنگ) ویب سائٹ پر پبلش کرواتا ہے،  جو پہلے سے گوگل پر رینک ہو اور یہ بڑی ویب سائٹ والا اس آرٹیکل کو لگانے کے کچھ پیسے لیتا ہے، ا س سے نیو ویب سائٹ والے کو فائدہ یہ ہوتا  ہےکہ اس کی ویب سائٹ بھی رینک کرنے لگتی ہے ۔ فری لانسر دونوں ویب سائٹ والوں سے رابطہ کرتا ہے ،بڑی ویب سائٹ والے  سے آرٹیکل پبلش کرانے پر کم پیسوں میں ڈیل کرتا ہے جبکہ چھوٹی ویب سائٹ والےسے زیادہ پیسوں میں ڈیل کرکےاس کا آرٹیکل  لیتا  ہے،  مثال کے طور پر فری لانسر بڑی ویب سائٹ والے کے پاس جاتا ہے اور اس سے ایک پوسٹ (آرٹیکل )کے حساب سے۰ ۵۰۰ میں ڈیل کر لیتا ہے اور چھوٹی ویب سائٹ والے سےاسی پوسٹ کے ۸۰۰۰۰ لے لیتا ہے ، ا س سے اس کو   ۳۰۰۰ کا  پرافٹ ہو جاتا ہے ، کیا یہ کام شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟

 نیز یہ بھی بتادیجیئے گا کہ  ان ویب سائٹس میں سے کچھ ویب سائٹس جوے ، شراب ،فلمز ، میوزک وغیرہ کی ہوتی ہیں، کیا ان کے لیے بیک لنکس لے کر پیسے کمانا شرعاً جائز ہو گا یا نہیں ؟ ایسے ہی کچھ ویب سائٹس کپڑوں ، فیشن وغیرہ کی ہوتی ہیں ،جن پر لڑکیوں کی تصویریں بھی ہوتی ہیں یا غیر شرعی لباس وغیرہ بیچتے ہیں ، ایسے ہی کچھ ویب سائٹس انشورنس کے وکیلوں کی ہوتی ہیں ،جو انشورنس کمپنیوں سے انشورنس وصول کروا کے دیتے ہیں ، کچھ ویب سائٹ ایسی ہوتی ہیں جو کرپٹوکرنسی وغیرہ کے لیے سوفٹویئر بناتی ہیں اور کچھ فوٹوگرافی کی ویب سائٹ ہوتی ہیں ، جو شادی بیاہ و دیگر  پروگرامات کے لیے آرڈر پر فوٹو گرافی وغیرہ  کاکام کرتی ہیں۔ براہ مہربانی تفصیل کے ساتھ رہنمائی فرمائیں اور جو سولات پوچھے گئےہیں ، ان کا تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں ، جزاک اللہ خیرا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چھوٹے درجہ (رینک)  والی ویب سائٹ کی ایس ای او کرانے کے لیے کسی بڑی ویب سائٹ پر اپنا آرٹیکل  مخصوص رقم کے عوض شائع کرانا  شرعی  لحاظ سے اجارہ (کرایہ داری کا معاملہ) ہے، جس میں فری لانسرچھوٹی  ویب سائٹ کے مالک کے لیے تو اجیر ہے،   لیکن جب یہ آگے بڑی ویب سائٹ کے مالک سے جگہ لے لیتا ہے، تو مستاجر بھی ہے،اب  گویا بڑی ویب سائٹ پر اپنا آرٹیکل شائع کرانے کامطلب یہ ہوا کہ چھوٹی ویب سائٹ والے نے فری لانسر کی خدمات حاصل کرکے  بڑی ویب سائٹ پر ایک مخصوص  جگہ کرایہ پر لے لی ہےاور فری لانسر چھوٹی ویب سائٹ سے وہ کرایہ پیشگی لے کر بڑی ویب سائٹ کو آرٹیکل شائع کروانے پر  ادا کرتا ہے اور دونوں کرایہ جات میں جو فرق ہوگا ، وہ فری لانسر کا نفع ہوگا۔

سوال میں ذکرکردہ تفصیلات کے مطابق  فری لانسر کا کام دونوں ویب سائٹس کے درمیان   رابطہ قائم کرکے آرٹیکل شائع کرانا ہے، جس میں پہلے وہ بطور اجیر کسی چھوٹی ویب سائٹ سے  رابطہ کرکے اس کاآرٹیکل  بڑی ویب سائٹ پر شائع کرانےکے لیے اپنی خدمات فراہم کرتا ہے،اس مرحلہ میں چھوٹی ویب سائٹ فری لانسر سے یہ کہتا ہے کہ میرا آرٹیکل فلاں ویب سائٹ پر لگوانے کے کتنے پیسے لوگے؟  اور اس طرح کی خدمات کے لیے  چھوٹی ویب سائٹ اسے طے شدہ اجرت دے دیتا ہے ۔ جب فری لانسر کو  آرٹیکل مل جاتا ہے، تو پھروہ  اسےطے شدہ معاہدہ کے تحت  بڑی ویب سائٹ پر شائع کراتا ہے اور بڑی  ویب سائٹ شائع کرانے پراس سے  ایک مخصوص اجرت لیتی ہے ، جو سائل کے مطابق اس اجرت سے کم ہوتی ہے ، جو وہ چھوٹی ویب سائٹ سے وصول کرچکا ہوتا ہے اور اجرت میں  اسی کمی  (فرق) کے نتیجے میں فری لانسر(جو دونوں ویب سائٹس کے درمیان واسطہ بنا تھا) کو نفع ہوجاتا ہے ۔

   اس سلسلے میں فری لانسر کے لیے   چند باتوں کی رعایت بے حد ضروری ہے :

1.       جس کمپنی کی ویب سائٹ کا آرٹیکل شائع کرانے کے لیے لیا جارہا ہو، اس کمپنی کا کاروبارشرعا جائز ہو، لہذا جو ویب سائٹس خالص شراب،  جوئے،  میوزک، فلمز جیسی چیزوں کی ہوتی ہیں اور ان کی آمدنی بھی اس طرح کے حرام ذرائع سے آتی  ہو،  تو ان کے آرٹیکلز شائع کرانےکے لیے اپنی خدمات فراہم کرنا شرعا جائزنہیں اور نہ ایسی خدمات کے عوض ملنے والی اجرت حلال ہوگی، اس لیے کہ  اس میں حرام کام کے ساتھ کسی نہ کسی صورت میں تعاون(مثلا برے کاموں کا فروغ)  ضرور  پایا جاتا ہے۔

 البتہ اگر کوئی ویب سائٹ ایسی ہے ، جس کے کاروبار کا اکثر حصہ حلال کاموں پر مشتمل ہو ، لیکن جزوی طور پر حرام کام بھی  کیا جاتا ہو ،گویا  حرام کی بنسبت حلال کام واضح طور پر غالب ہو ، تو ایسی صورت میں اس کا آرٹیکل لگوانے کے لیے اپنی خدمات فراہم کرنا جائز ہے ، بشرطیکہ وہ آرٹیکل خود ناجائز مواد پر مشتمل نہ ہو اور وہ ناجائز کام کی طرف داعی بھی نہ ہواور ایسی صورت میں جو اجرت ملے گی ، وہ حلال ہوگی۔

2.      ایسی ویب سائٹس جو خواتین کے   فیشنی  اور ماڈلنگ لباس یا سپورٹس کے نیم برہنہ لباس   فروخت کرتی ہوں، اگرچہ ایسے لباس کا فی الجملہ جائز استعمال ممکن ہے ، لیکن  جب واضح طور پر معلوم ہو کہ خریدنے والا  اسے ناجائزطریقہ سے استعمال کرے گا، تو ایسے لباس کا بیچنا کراہت سے خالی  نہیں ،لہذا ایسی ویب سائٹ کے  آرٹیکلز شائع کرانے سے اجتناب کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ ایسی ویب سائٹ کے کام میں کسی بھی طرح  تعاون کرنا معاشرے میں بے پردگی و  بے حیائی کا پھیلانے کا سبب بن جاتا ہے ۔

3.      سائل کے مطابق بعض ویب سائٹ ایسی ہوتی ہیں ، جو صرف شادی بیاہ جیسی تقریبات کے لیےدلہا و دلہن کی  فوٹو گرافی اور اس کی ڈیزائیننگ کا کام کرتی ہیں اور عموما ان کے آرٹیکلز بھی خواتین  کی تصاویر پر مشتمل ہوتی ہیں ۔

مذکورہ بالا دو نوں صورتوں (۲،۳)میں  فری لانسر کو ملنے والی  اجرت شرعا مکروہ تحریمی ہوگی ، لہذا اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسی ویب سائٹس کے لیے اپنی خدمات فراہم نہ کریں  ۔

4.      انشورنس کلیم کی سروس دینے والی ویب سائٹ کا آرٹیکل شائع کرانے سے مکمل اجتناب کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ وہ آرٹیکل یقینا سود اور غرر پر مشتمل پالیسیوں پر مبنی ہوتا ہے  اور سودی کام میں اس طرح کی سروسز فراہم کرنا شرعا جائز نہیں۔

5.      خود گیسٹ پوسٹنگ کے کام میں جعل سازی اور دھوکہ نہ ہو، مثلا چھوٹی ویب سائٹ جو اپنا آرٹیکل کسی بڑی ویب سائٹ پر شائع کرانا چاہتی ہے ، اس کے لیے لازم ہے کہ اس کاآرٹیکل جن  مواصفات و خصوصیات پر  مشتمل ہے، وہ اپنے کسٹمرز کو  ایسی ہی چیزیں یا سروسز فراہم کریں۔ صرف ویب سائٹ کی ٹریفک بڑھانے کے لیے جعلی و جھوٹ پر مبنی آرٹیکل شائع کرانا شرعا جائز نہیں۔

6.      اسی طرح ہر وہ آرٹیکل جو برائی یا گناہ کے کام کی طرف  کی داعی ہو ، اس کا شائع کرانا شرعا ناجائز ہے ، اس سے مکمل بچنا ضروری ہے۔

حوالہ جات
المائدة:( 2)
 وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ .
 "الهدايةباب الإجارة الفاسدة(3(306::
  ولا يجوز الاستئجار على الغناء والنوح وكذا سائر الملاهي لأنه استئجار على المعصية والمعصية لا تستحق بالعقد۔
ردالمحتار (6/391,392):
قوله ( وجاز تعمير كنيسة ) قال في الخانية: ولو آجر نفسه ليعمل في الكنيسة ويعمرها لا بأس به؛ لأنه لا معصية في عين العملقوله ( وحمل خمر ذمي ) قال الزيلعي: وهذا عنده، وقالا: هو مكروه؛ لأنه عليه الصلاة والسلام لعن في الخمر عشرة وعد منها حاملها، وله أن الإجارة على الحمل، وهو ليس بمعصية، ولا سبب لها، وإنما تحصل المعصية بفعل فاعل مختار، وليس الشرب من ضرورات الحمل؛ لأن حملها قد يكون للإراقة أو للتخليل، فصار كما إذا استأجره لعصر العنب أو قطعه، والحديث محمول على الحمل المقرون بقصد المعصية اھ۔
زاد في النهاية ، وهذا قياس وقولهما استحسانثم قال الزيلعي: وعلى هذا الخلاف لو آجره دابة لينقل عليها الخمر أو آجره نفسه ليرعى له الخنازير يطيب له الأجر عنده وعندهما يكره. …….. قوله (لا عصرها لقيام المعصية بعينه) فيه منافاة ظاهرة لقوله سابقا؛ لأن المعصية لا تقوم بعينه ط، وهو مناف أيضا لما قدمناه عن الزيلعي من جواز استئجاره لعصر العنب أو قطعه، ولعل المراد هنا عصر العنب على قصد الخمرية، فإن عين هذا الفعل معصية بهذا القصد، ولذا أعاد الضمير على الخمر مع أن العصر للعنب حقيقة، فلا ينافي ما مر من جواز بيع العصير واستئجاره على عصر العنب، هذا ما ظهر، فتأمل.

صفی اللہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

17/ذی قعدہ /1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی اللہ بن رحمت اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے