021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قربانی کے مسائل

شرائط وجوب ِقربانی:

قربانی چھ شرطوں سے واجب ہوتی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:

1:۔مسلمان ہونا، غیرمسلم پر قربانی نہیں۔

2:۔ مقیم ہونا، مسافر پر قربانی واجب نہیں۔

3:۔ آزاد ہونا، غلام پر قربانی واجب نہیں۔

4:۔ تو نگری یعنی صاحب نصاب ہونا، مسکین پر قربانی نہیں ۔(الفتاوي الهندية، 5/292)

5 :۔ بالغ ہونا، نابالغ پر قربانی واجب نہیں۔

6:۔عاقل ہونا، مجنون پر قربانی واجب نہیں۔ ہاں اگر قربانی کے ایام میں مجنون کو افاقہ ہو تو قربانی واجب ہے۔ (حاشية ابن عابدين، 6/317)

مذکورہ شرائط کا پورے وقت میں پایا جانا ضروری نہیں:

مذکورہ شرائط کا قربانی کے پورے وقت میں پایا جانا ضروری نہیں بلکہ وقت وجوب کے آخری جزء میں بھی اگر یہ شرطیں پائی گئیں تو اس پر قربانی واجب ہے۔ یعنی اگر ۱۲ ذی الحجہ کی شام میں غروب آفتاب سے ذرا پہلے کوئی کافر مسلمان ہوگیا، یا مسافر وطن پہنچ گیا، یا غلام آزاد ہوگیا، یا بچہ بالغ ہوگیا، مجنون کو صحت ہوگئی، یا فقیر صاحب نصاب بن گیا تو ان پر قربانی واجب ہوگئی۔ اس میں مرد و زن کا حکم یکساں ہے (بدائع الصنائع، 5/64)۔

آخر وقت میں کوئی شرط فوت ہوگئی:

اگر ابتداء ایام اضحیہ میں کسی پر قربانی واجب تھی مگر آخر میں کوئی شرط فوت ہوگئی تو قربانی واجب نہیں رہی۔ مثلاً: مالدار تنگ دست ہوگیا یا مقیم مسافر بن گیا تو ان پر قربانی واجب نہیں رہی۔ (حاشية ابن عابدين، 6/315)۔

فقیر قربانی کے بعد مالدار ہوگیا:

اگر کسی فقیر نے قربانی کردی، پھر آخر وقت میں مالدار ہوگیا، یعنی بقدر نصاب مال اسے حاصل ہوگیا تو راجح قول کے مطابق اس پر نئے سرے سے قربانی کرنا واجب نہیں۔ (حاشية ابن عابدين،6/316)۔

حاجی مسافر ہو تو قربانی واجب نہیں:

اگر کسی شخص کا قیام مکہ مکرمہ میں منیٰ کے 4، 5 دنوں کو ملاکر 15 دن یا اس سے زیادہ ہو تو وہ مقیم ہے۔ اگر وہ صاحب نصاب ہے تو اس پر قربانی واجب ہے، جسے وہ وہاں بھی ادا کرسکتا ہے اور اپنے وطن میں کسی کو وکیل بناکر بھی ادا کرسکتا ہے اور اگر مکہ مکرمہ میں قیام 15 دن سے کم ہو، پھر مدینہ منورہ جانا ہو یا وطن واپس لوٹنا ہو تو وہ مسافر ہے، اس پر قربانی واجب نہیں۔

ملحوظہ: اب چونکہ منیٰ مکہ مکرمہ کا حصہ ہوگیا، اس لیے منیٰ میں قیام کے دن شامل کرکے مقیم یا مسافر ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ مندرجہ بالا مسئلہ اسی تبدیل شدہ صورتِ حال پر مبنی ہے۔ واضح رہے کہ حج تمتع و قران کرنے والے پر بطور شکر الگ قربانی واجب ہوتی ہے جس کا وہیں کرنا  ضروری ہوتا ہے (حاشية ابن عابدين، 2/515)۔

قربانی کا وقت:

شہر اور دیہات میں فرق:

شہر والوں کے لیے قربانی کا وقت ۱۰ ذی الحجہ کو نمازِ عید کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور دیہات والوں کے لیے صبح صادق سے شروع ہوجاتا ہے۔ اختتام میں کوئی فرق نہیں، دونوں کے لیے ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک وقت رہتا ہے۔ چنانچہ دیہات والے صبح صادق کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے بھی قربانی کرسکتے ہیں اور شہر والے نماز عید کے بعد قربانی کرسکتے ہیں، اگر شہر میں کسی بھی جگہ عید کی نماز نہیں ہوئی تھی کہ کسی شہری نے قربانی کردی تو قربانی نہیں ہوئی(الدر المختار، 1/646)۔

مستحب وقت:

دیہات والوں کے لیے مستحب وقت یہ ہے کہ طلوع آفتاب کے بعد قربانی کریں اور شہر والوں کے لیے مستحب وقت یہ ہے کہ خطبۂ عید کے بعد قربانی کریں۔ پہلا دن قربانی کے لیے سب سے افضل ہے، پھر دوسرے دن کا درجہ ہے، پھر تیسرے دن کا۔ (الفتاوى الهندية، 5/295)۔

پہلے دن نماز نہ پڑھی جاسکی:

اگر شہر میں کسی وجہ سے نماز عید نہ پڑھی جاسکے تو قربانی اتنی مؤخر کی جائے کہ نماز کا وقت گذر جائے یعنی زوال آفتاب تک انتظار کیا جائے۔ اگر نماز عید کسی عذر سے گیارہویں یا بارہویں کو پڑھی جائے تو قربانی نماز عید سے پہلے بھی کی جاسکتی ہے۔ (الفتاوى الهندية، 5/295)۔

کسی ایک جگہ نماز عید کا ہوجانا اضحیہ کے لیے کافی ہے:

اگر شہر میں متعدد جگہ نماز عید ہوتی ہے تو قربانی کی صحت کے لیے ایک جگہ نماز ہوجانا کافی ہے۔ ہر قربانی کرنے والے کا نماز عید پڑھ کر قربانی کرنا ضروری نہیں۔ شہر میں سب سے پہلی نماز کے بعد کسی نے خود نماز پڑھنے سے پہلے قربانی کردی تو جائز ہے ۔(حاشية ابن عابدين، 6/318)۔

وقت میں فرق کس لحاظ سے؟

شہر اور دیہات کے درمیان جو وقت ِقربانی کا فرق بیان کیا گیا، یہ فرق قربانی کے لحاظ سے ہے نہ کہ قربانی کرنے والے کے اعتبار سے۔ لہٰذا اگر شہری نے اپنا جانور دیہات میں بھیج دیا تو نمازِ عید سے پہلے بھی اسے ذبح کیا جاسکتا ہے اور اگر دیہاتی نے اپنا جانور شہر میں بھیج دیا تو اسے نمازِ عید سے پہلے ذبح کرنا جائز نہیں۔(حاشية ابن عابدين، 6/318)۔

رات میں قربانی کرنا:

دسویں اور تیرہویں رات کو قربانی کرنا جائز نہیں۔ گیارہویں اور بارہویں رات کو جائز ہے، مگر رات میں رگیں نہ کٹنے، یا ہاتھ کٹنے، یا اضحیہ کے آرام میں خلل کے اندیشہ سے ذبح کرنا مکروہ تنزیہی ہے ۔(حاشية ابن عابدين، 6/320)۔

قربانی کس پر واجب ہے؟

بعض دیندار لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ فرضیت زکوٰۃ اور وجوب قربانی کا نصاب ایک ہی ہے۔ہم پر چونکہ زکوٰۃ فرض نہیں لہٰذا قربانی بھی واجب نہیں، حالانکہ دونوں کا نصاب الگ الگ ہے۔

زکوٰۃ چار قسم کے اموال پر فرض ہوتی ہے:

1:۔سونا  2:۔ چاندی         3 :۔نقدی         4:۔ مالِ تجارت  ۔    (البنایۃ، 3/366)

ان چار قسم کے اموال کے علاوہ جانوروں میں بھی زکوٰۃ فرض ہےجس کا نصاب اور تفصیل الگ ہے۔ قربانی کے نصاب میں ان اشیاء کے علاوہ ضرورت سے زائد سامان کی قیمت لگانا بھی ضروری ہے یعنی قربانی کے نصاب میں درجِ ذیل پانچ چیزوں کا حساب لگا یا جائے گا:

1:۔ سونا  2:۔چاندی         3:۔نقدی          4:۔مالِ تجارت     5:۔ضرورت سے زائد سامان

یاد رکھیں ٹی وی، ضرورت سے زائد لباس اور وہ تمام اشیاء جو محض زیب و زینت یا نمود و نمائش کے لیے گھروں میں رکھی رہتی ہیں یا بہت سے فالتو برتن، کپڑے، بستر یا اس طرح کے ضرورت سے زائد مکان، دوکان یا کوئی بھی پراپرٹی اور دوسری اشیاء جو سال بھر میں ایک مرتبہ بھی استعمال نہیں ہوتیں، زائد از ضرورت ہیں اس لیے ان سب کی قیمت بھی حساب میں لگائی جائے گی۔

خلاصہ یہ کہ جس شخص کی ملک میں ساڑھے سات تولہ =۴۷۹ء ۸۷ گرام سونا یا ساڑھے ۵۲تولہ =۳۵ء ۶۱۲ گرام چاندی ہو اس پر قربانی و صدقۃ الفطر واجب ہے۔ اسی طرح جس شخص کے پاس نقدی یا مال تجارت یا ضرورت سے زائد مکان، دوکان، پلاٹ یا سامان (تمام چیزوں میں سے کوئی ایک چیز)چاندی کے وزن مذکور کی قیمت کے برابر ہو اس پر بھی قربانی و صدقۂ فطر واجب ہے۔ اسی طرح جس شخص کے پاس مندرجہ بالا پانچ چیزوں میں سے کوئی سی بھی دو یا دو سے زائد چیزوں کا مجموعہ چاندی کے وزن مذکور کی مالیت کے برابر ہو تو قربانی اور صدقۃ الفطر واجب ہے اور ایسے شخص کے لیے زکوٰۃ یا صدقہ واجبہ لینا بھی جائز نہیں(الجوهره النيرة، 1/131)۔

ساڑھے ۵۲تولہ یعنی ۳۵ء ۶۱۲ گرام چاندی کی قیمت صرافوں سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ چونکہ سونے چاندی کی قیمت بدلتی رہتی ہے اس لیے کسی ایک دن کی قیمت لکھ دینا غلط فہمی کا باعث ہوگا۔

سونے چاندی پر زکوٰۃ اور قربانی کی تفصیل:

عموماً یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے حتیٰ کہ بعض اہل علم بھی اس کا شکار ہیں کہ جب تک سونا ساڑھے سات تولہ اور چاندی ساڑھے باون تولہ نہ ہو تو اس پر اس سونے چاندی کی نہ زکوٰۃ فرض ہے، نہ اس پر قربانی واجب ہے، حالانکہ وزن کا اعتبار اس صورت میں ہے کہ جب کسی کی ملک میں صرف سونا یا صرف چاندی ہو، نقدی ایک پیسہ بھی نہ ہو، مال تجارت ذرا سا بھی نہ ہو اور ضرورت سے زائد کچھ بھی نہ ہو۔ اگر دو یا زیادہ اقسام کے اموال ہوں تو ہر ایک کا علیحدہ نصاب پورا ہونا ضروری نہیں بلکہ اس صورت میں سب کی قیمت لگائی جائے گی۔ اگر سب کی قیمت کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا زائد ہو جائے تو اوپر مذکور تفصیل کے مطابق زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور قربانی واجب ہے۔ مثلاً اگر کسی کے پاس ایک تولہ سونا ہے اور ایک روپیہ نقدی ہے تو دونوں کی مالیت کو دیکھا جائے گا۔ ایک تولہ سونے کی قیمت اگر پچاس ہزار ہے تو ایک روپیہ نقدی اس کے ساتھ جمع کریں گے، گویا یہ شخص50یا100 روپے کا مالک ہے، اگر یہ رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ہے تو مفتی بہ قول جواب تک بتایا جاتا رہا ہے، کے مطابق زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور قربانی واجب ہے۔ (بدائع الصنائع، 2/19)۔

چنانچہ خواتین کے پاس کئی کئی تولے سونا ہوتا ہے، کچھ نہ کچھ نقدی بھی ضرور ہوتی ہے، ضرورت سے زائد سامان کے ڈھیر ہوتے ہیں مگر وہ نہ زکوٰۃ ادا کرتی ہیں نہ قربانی، اس کی اصلاح بہت ضروری ہے۔

کم آمدن والوں کی مشکل کا حل:

مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق جس پر قربانی واجب ہو اُسے حتی الامکان قربانی ادا کرنے کی ضرور کوشش کرنی چاہیے۔مگر بعض کم آمدن والے افراد کو اس میں کافی تنگی پیش آتی ہے۔ کیونکہ آج کل ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت عموماً تیس سے چالیس ہزار روپے کے درمیان رہتی ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس عیدالاضحیٰ کے ایام میں اتنی نقد رقم موجود ہو مگر اس نے مہینہ بھر کے گھریلو اخراجات کے ساتھ بچوں کی تعلیمی فیسوں اور گھر والوں کے علاج و معالجہ کے انتہائی ضروری اخراجات بھی اسی رقم سے کرنے ہوں تو ایسے میں اتنی رقم میں قربانی کے دس سے پندرہ ہزار روپے تک کے اخراجات پورے کرنا بسا اوقات مشکل ہوتا ہے۔ بالخصوص جبکہ قربانی کے نصاب میں زائد از ضرورت سازو سامان کا بھی اعتبار ہے تو اگر کسی کے پاس نقدی کی صورت میں اس سے بھی کم رقم ہوحتیٰ کہ اگر اتنی معمولی رقم ہو کہ اُس سے قربانی کا جانور یا اجتماعی قربانی کا ایک حصہ بھی نہ خریدا جاسکتا ہو مگر گھر میں پڑے ضرورت سے زائد بے کار سے سامان (جو عموماً فروخت بھی نہیں ہوتا) کے ساتھ مل کر اس کے پاس نصاب کی مالیت پوری ہوجاتی ہو تو تفصیل بالا کے مطابق اس پر قربانی واجب ہوگی۔ مگر ظاہر ہے کہ ایسا شخص اگر دس سے پندرہ ہزار روپے خرچ کرکے قربانی کرے گا تو نہ صرف یہ کہ وہ مہینہ بھر کے انتہائی لازمی اخراجات کے لیے بھی مشکل میں پڑجائے گا، بلکہ اسے قرض لینا پڑے گا۔

اسی طرح جس عورت کے پاس صرف تولہ ڈیڑھ تولہ سونے کا استعمالی زیور ہے اور تھوڑی سی نقدی بھی ہے، زیور کی قیمت کو نقدی میں جمع کیا جائے تو نصاب پورا ہوجاتا ہے۔ اس پر ضابطہ کے مطابق زکوٰۃ اور قربانی واجب ہوتی ہے، جیسا کہ اوپر تفصیل سے مسئلہ لکھ دیا گیا۔ حتی الامکان اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ مگر بعض اوقات عورت کے پاس قربانی کرنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔ شوہر کے پاس بھی اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ بیوی کی طرف سے قربانی کردے۔ ویسے بھی شوہر کی یہ ذمہ داری نہیں۔ ایسی صورت میں خواتین کو کافی دقت پیش آتی ہے۔

ایسی مشکل سے دوچار مردوں اور خواتین میں سے ہر ایک کے لیے اس مشکل سے نکلنے کا ایک حل تو یہ ہے کہ وہ قربانی کے دنوں سے پہلے موجود رقم سے گھر کی ضروریات جیسے راشن وغیرہ خریدلے اور زائد از ضرورت سامان گھر میں کسی ایسے شخص کو ہبہ کرکے اپنی ملک سے نکال دے جو صاحب نصاب نہ ہو۔خواتین کے لیے ایسا کرنا آسان ہے لیکن مردوں کے لیے اگر ایسا کرنے میں بھی مشکل ہو تو دوسرا حل یہ ہے کہ ایسی صورت میں خاص ایسے شخص کے حق میں مشہور فقیہ ابن الملک رحمہ اللہ کے قول (جسے علامہ شامی رحمہ اللہ نے دوسرے مشائخ کی تائید کے ساتھ نقل فرمایا ہے) کے مطابق یہ فتویٰ بھی دیا جاسکتا ہے کہ جس شخص کی آمدنی اتنی کم ہو کہ اگر وہ قربانی کرے تو اس کے پاس مہینہ بھر کے ضروری اخراجات کے لیے بھی رقم نہ بچے تو اس پر قربانی لازم نہیں۔(حاشية ابن عابدين، 2/263)۔

کسی کو دیا ہوا قرض بھی نقدی میں شمار ہوگا:

ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ جو رقم کسی کو قرض دے رکھی ہو اسے نصاب کا حساب لگاتے وقت شامل نہیں کرتے حالانکہ جس قرض کے ملنے کی توقع ہو اسے نقدی میں شمار کیا جائے گا، خواہ وہ نقدی کی صورت میں آپ نے کسی کو دیا ہو یا کوئی چیز فروخت کی ہو اور قیمت وصول نہ کی ہو ۔(الدر المختار، 1/132)۔

لیا ہوا قرض نکال کر نصاب کا حساب لگایا جائے:

بعض لوگ مقروض ہوتے ہیں اس وجہ سے صاحب نصاب نہیں ہوتے مگر پھر بھی واجب سمجھ کر قربانی کرتے ہیں۔ حالانکہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ مقروض ہیں تو زکوٰۃ کے نصاب میں چار اور قربانی کے نصاب میں پانچ قسم کے اموال کی قیمت لگائیں۔ پھر اس سے قرض کو تفریق کریں۔ قرض نکالنے کے بعد اگر بقیہ اموال بقدر نصاب ہیں تو آپ پر زکوٰۃ اور قربانی واجب ہے ورنہ نہیں۔ قرض خواہ یا اہل حقوق کے حقوق پامال کر کے قربانی کرنا جائز نہیں۔ اگر قربانی واجب نہ ہونے کے باوجود کسی کا حق تلف کئے بغیر قربانی کرےجب کہ مقصود اﷲ کی رضا ہو، نہ کہ فخر و نمود تو کوئی مضایقہ نہیں۔ (حاشية ابن عابدين، 2/261)۔

گھر کے سربراہ کی قربانی سب کی طرف سے کافی نہیں:

عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ گھر کا سربراہ قربانی کر لے تو اسے سب افراد خانہ کی طرف سے کافی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ سربراہ کے علاوہ گھر کا کوئی اور فرد یا افراد نصاب کے مالک ہوں تو ان پر الگ سے قربانی واجب ہے۔ اس صورت میں گھر کے سربراہ کی طرف سے قربانی کو کافی سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے سربراہ کی نماز کو سب افراد خانہ کی طرف سے کافی سمجھا جائے۔

ہاں اگر اولاد اپنی سب کمائی والد کو دے دیتی ہے اور اولاد کی ملکیت میں اور کوئی مال زکوٰۃ اور ضرورت سے زیادہ سامان بھی بقدر نصاب نہیں تو زکوٰۃ اور قربانی صرف والد ہی پر فرض ہے، اولاد پر نہیں ۔(الاختيار لتعليل المختار، 5/16)۔

قربانی کے لیے مال پر سال گذرنا ضروری نہیں:

وجوب قربانی کے لیے مال پر سال گذرنا یا قربانی کی دوسری شرائط کا قربانی کے ایام سے پہلے پایا جانا ضروری نہیں، بلکہ قربانی کے دنوں میں بقدر نصاب مال کا مالک ہونا اور دیگر شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ۔ (الدر المختار، 1/645)حتیٰ کہ ۱۲ ذی الحجہ کی شام میں غروب آفتاب سے ذرا پہلے کہیں سے بقدر نصاب مال آگیا، مثلاً ہدیہ میں مل گیا یا مال دار کافر مسلمان ہو گیا یا مسافر مقیم ہو گیا تو قربانی واجب ہوگئی ۔(حاشية ابن عابدين، 6/315)۔

اگر غروب سے پہلے وقت کم ہونے کی وجہ سے قربانی کرنا ممکن نہ ہو یا کسی نے غفلت کی اور آفتاب غروب ہوگیا تو ایک بھیڑیا بکری کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے ۔(حاشية ابن عابدين، 6/316)۔

شرکاء میں سے ہر ایک کا صحیح العقیدہ مسلمان ہونا ضروری ہے:

شرکاء میں سے ہر شریک کا صحیح العقیدہ مسلمان ہونا قربانی کی صحت کے لیے شرط ہے۔ اگر کوئی ایک شریک بھی ایسا ہو جس کا عقیدہ صحیح نہ ہو بلکہ کفریہ یا شرکیہ ہو تو کسی شریک کی بھی قربانی صحیح نہ ہوگی۔  اس لیے اچھی طرح اطمینان کرلینا چاہیے کہ ہر شریک صحیح العقیدہ مسلمان ہے۔(الفتاوي الهندية، 5/304)۔

صحیح العقیدہ مسلمان وہ ہے جو تمام ضروریات دین پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہو ۔(المسامرة، 1/285)۔

ضروریاتِ دین وہ ہیں جن کا ثبوت قطعی و یقینی ہو اور ان کا دین ہونا مشہور و معروف ہو۔ اس لیے دین کے کسی بھی امر قطعی و بدیہی کے منکر کے ساتھ قربانی نہ کی جائے مثلاً:

1:۔عقیدہ ختم نبوت کے منکرین          2:۔منکرین حدیث  3:۔وہ شخص جو قرآن مجید میں تحریف کا قائل ہو یا ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا پر تہمت لگاتا ہو یا حضرات شیخین حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کو نعوذ باﷲ مرتد کہتا ہو۔      4:۔ مشرک یعنی ﷲ تعالیٰ کی ذات یا کسی صفت میں مخلوق کو شریک ٹھہرانے والا مثلاً غیر ﷲ کو مختار کل یا نفع و نقصان کا مالک یا بلاواسطہ بذات خود عالم الغیب یا علم غیب کلی کے ساتھ سمجھنے والا۔

مندرجہ بالا عقائد رکھنے والوں کا ذبیحہ بھی حرام ہے۔ ان سے ذبح نہ کرائے ورنہ قربانی نہیں ہوگی۔

قربانی کے لیے ثواب کی نیت ضروری ہے:

سب شرکاء کا بنیت ثواب قربانی کرنا ضروری ہے۔اگر کسی ایک شریک کی نیت قربانی کی نہ ہو بلکہ محض گوشت کھانے کی نیت ہو تو کسی شریک کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی ۔(الفتاوي الهندية، 5/304)۔

حرام آمدن والوں کو شریک کرنا:

عموماً اس کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ سب شرکاء حلال آمدن سے قربانی کرنے والے ہوں، جانچ پڑتال کے بغیر ہر ایک کو شریک کرلیا جاتا ہے، اس سے بعض اوقات سب کی قربانی ضائع ہو جاتی ہے۔

سودی بنکوں یا مروجہ انشورنس کمپنیوں کا کوئی ملازم یا اور کوئی حرام آمدن والا اگر حرام آمدن سے رقم دے کر قربانی میں شریک ہوا تو شرکاء میں سے کسی کی بھی قربانی درست نہیں ہوئی۔ کیونکہ تمام شرکاء کا بنیت قربت (حصولِ ثواب) قربانی کرنا ضروری ہے اور حرام مال سے قربت یعنی ثواب کی نیت کرنا جائز نہیں، بلکہ اس سے کفر کا اندیشہ ہے ۔(الفتاوي الهندية، 5/304)۔

اشکال وجواب:

مذکورہ بالا مسائل سے کسی کو یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کے غلط عقیدہ، غلط نیت اور حرام آمدن سے سب کے حصے کیسے خراب ہوگئے اور سب کی قربانی کیوں ضائع ہوگئی؟ جواب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ قربانی میں تجزی و تقسیم نہیں ہوسکتی کہ چھ حصوں کو درست کہا جائے اور ایک حصہ کو غلط کہا جائے۔ جیسے کسی نے نماز کی چوتھی رکعت میں کسی ایسے امر کا ارتکاب کیا جو مفسد صلوٰۃ (نماز باطل کرنے والا) ہے تو یہ نہیں کہا جائے گاکہ چونکہ مفسد چوتھی رکعت میں پایا گیا اس لیے صرف چوتھی رکعت فاسد ہوئی بلکہ پوری نماز پر فساد کا حکم جاری ہوگا۔

قربانی تک بھوکا پیاسا رہ کر اس کو روزہ سمجھنا جہالت ہے:

عوام قربانی تک بھوکا پیاسا رہنے کو روزہ کا نام دیتے ہیں۔ یہ جہالت کی بات ہے۔ روزہ تو پورے دن کا ہوتا ہے اور عید کے دن تو ویسے ہی روزہ رکھنا حرام ہے۔ البتہ قربانی کے گوشت سے کھانے کی ابتداکرنا مستحب ہے، مگر وہ روزہ نہیں، نہ اس میں روزہ کا ثواب ہے، نہ روزہ کی نیت ہے اور نہ ہی یہ حکم فرض یا واجب ہے۔(مجمع الأنهر، 1/175) ۔

 صرف مستحب ہے اور صرف دسویں تاریخ کے ساتھ مختص ہے لہٰذا اگر کسی علاقے میں عوام اسے روزہ سمجھتے ہوں تو اہل علم کو قربانی سے پہلے کچھ کھانا چاہیے تاکہ عوام کی اصلاح ہو۔

قربانی کے اَیام میں شکار کھیلنا یا ویسے جانور ذبح کرنا:

بعض لوگ قربانی کے ایام میں قربانی کے بغیر ویسے مہمان وغیرہ کے اکرام کے لیے جانور ذبح کرنے کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ ان ایام میں پرندوں یا جانوروں کا شکار کرنے کو ممنوع سمجھتے ہیں۔ یہ سب بے اصل تو ہمات ہیں۔ ان ایام میں شکار کرنا، اپنے لیے یا مہمان کے اکرام کے لیے جانور ذبح کرنا جائز ہے۔

ولایتی گائے کی قربانی:

بیرونی ممالک سے در آمدشدہ گائے کی ایک قسم چھوٹے قد کی اور باریک ٹانگوں والی ہوتی ہے اور بعض لوگ اسے خنزیر کے مشابہ بتاتے ہیں۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ مغربی ممالک میں خنزیر پر تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مادہ خنزیر بیک وقت دس بارہ بچے جنتی ہے۔ اس کے تھنوں میں دودھ بہت زیادہ ہوتا ہے اور یہ سارے بچے اس کے اپنے دودھ ہی سے پرورش پاتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بطورِ تجربہ گائے کو خنزیر سے حاملہ کروایا۔ جب بچے پیدا ہوئے تو وہ اسی قد کاٹھ اور ڈیل ڈول کے تھے اور گائے کے تھنوں میں دودھ بھی زیادہ تھا۔ اب مغربی ممالک سے اس قسم کی گائے کثرت سے درآمد ہونے لگی ہے۔

بہت سے لوگ اس بارے میں تشویش میں مبتلاہیں کہ ایسی گائے کا دودھ اور گوشت حلال ہے یا حرام؟ اور ایسی گائے کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟ اس سے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ اولاً تو اس فارمی گائے کے بارے میں جو باتیں مشہور ہیں اس کی یقینی تحقیق نہیں کہ واقعتا ایسا ہوتا ہے یا نہیں؟ اور جب تک کوئی بات یقینی طور پر ثابت نہ ہو اس کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں ۔(الأشباه و النظائر، 1/47)۔

ثانیاً بعض ڈاکٹروں کے بقول ہمارے ہاں گائے کے دودھ کی پیداوار بہت کم تھی۔ حیوانات کے ماہرین نے آسٹریلیا، فرانس، جرمنی، برطانیہ، امریکا اور ہالینڈ کی فریژین اور جرسی نسل کے بیل کا مادہ منویہ لے کر تجربہ گاہ حیوانات کورنگی کراچی میں سندھی نسل کی گائے کو مصنوعی طریقہ سے حاملہ کروایا تو اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔ مگر اس طرح دو نسلوں کے مخلوط طریقۂ افزائش حیوانات سے گائے کی شکل، آواز، رنگ اور قد و قامت میں واضح فرق آیا۔ حاصل یہ کہ اس میں خنزیر کی پیوند کاری کا عمل دخل نہیں ہے۔

اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ باتیں صحیح ہیں تو بھی اس سے گائے کے گوشت اور دودھ کی حلت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کیونکہ کوئی جانور کس جنس میں شامل ہے؟ اس سے متعلق فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے تصریح فرمائی ہے کہ وہ ماں کے تابع ہے۔ ماں جس جنس کی ہو وہ اسی جنس کا شمار ہوگا اگر چہ ماں کسی اور جنس کے نر سے حاملہ ہوئی ہو اور بچہ مکمل طور پر نر کے مشابہ ہو۔چنانچہ فقہ حنفی کی شہرہ آفاق کتاب ’’رد المحتار‘‘ میں مذکور ہے کہ کسی بکری نے بھیڑئیے کا بچہ جنا تو وہ بچہ حلال ہے ۔(حاشية ابن عابدين، 1/226)۔

لہٰذا ایسی گائے کا گوشت اور دودھ حلال اور اس کی قربانی بلا شبہہ جائز ہے۔

خصی جانور کی قربانی جائز بلکہ افضل ہے:

بعض لوگ خصی جانور کی قربانی کو درست نہیں سمجھتے، یہ خیال غلط ہے، بلکہ خصی جانور کی قربانی زیادہ افضل ہے۔ (تحفة الفقهاء، 3/86)۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے خصی جانور کی قربانی فرمائی ہے(مجمع الزوائد)۔ نیز امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ مجھے خصی جانور زیادہ پسندہے، اس لیے کہ اس کا گوشت زیادہ عمدہ ہوتا ہے۔

بسم اللہ اللہ اکبر کہنا صرف ذابح پر واجب ہے:

عوام میں مشہور ہے کہ ذابح کے علاوہ جانور کو پکڑنے والے اور مدد کرنے والے پر بھی بسم اللہ اللہ اکبر کہنا واجب ہے۔ یہ محض غلط ہے، یہ صرف ذبح کرنے والے پر واجب ہے ۔(الفتاوی الھندیۃ، 5/286)۔

عورتوں کا ذبیحہ حلال ہے:

بعض لوگ عورتوں کے ذبیحہ کو درست نہیں سمجھتے۔ یہ بھی غلط خیال ہے۔عورت، سمجھدار بچے اور بچی کا ذبیحہ درست ہے۔ (الجوھرۃ النیرۃ، 2/181)۔

ذبح فوق العقدہ کا حکم:

اگر کسی جانور کو عقدہ( گردن میں ابھری ہوئی گانٹھ ہڈی) کے اوپر سے ذبح کر دیا یعنی عقدہ نیچے کی طرف رہ گیا اور جانور کو گردن کے بالکل آخری ٹھوڑی سے متصل حصہ سے ذبح کر دیا تو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ذبح صحیح نہیں ہوا اور جانور حرام ہو گیا کیونکہ اس جگہ سے ذبح کرنے سے وہ رگیں نہیں کٹتیں جن کا کاٹنا ضروری ہے۔

یہ غلط فہمی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عقدہ کے اوپر سے ذبح کرنے سے بھی وہ رگیں کٹ جاتی ہیں جن کا ذبح میں کاٹنا ضروری ہے اور اس سے مکمل طور پر خون بہ جاتا ہے۔ اس لیے اس طرح جانور بلا شبہہ حلال ہو جاتا ہے۔کسی قسم کا شبہہ نہ کیا جائے۔ البتہ ذبح کرنے والے کو چاہیے کہ وہ عقدہ کے نیچے سے ذبح کرے کہ احتیاط اسی میں ہے۔

قربانی کن جانوروں کی جائز اور کن کی ناجائز ہے:

قربانی مندرجہ ذیل جانوروں کی ہو سکتی ہے:

اونٹ، گائے، بھینس، بھیڑ، بکری، دنبہ، ان جانوروں میں سے ہر ایک کی قربانی درست ہے، خواہ نر ہو یا مادہ یا خصی۔ ان کے سوا کسی دوسرے جانور کی قربانی درست نہیں جیسے نیل گائے، ہرن وغیرہ۔ (الفتاوي الهندية، 5/297)۔

جانوروں کی عمروں کی تفصیل:

قربانی کے اونٹ کی عمر کم از کم پانچ سال، گائے، بھینس کی دو سال اور بھیڑ، بکری، دنبہ کی ایک سال ہونا ضروری ہے۔

البتہ بھیڑ یا دنبہ چھ ماہ کے ہوں مگر اس قدر فربہ( صحت مند اور موٹے) ہوں کہ دیکھنے میں پورے سال کے معلوم ہوتے ہوں، جس کی علامت یہ ہے کہ انہیں سال کی بھیڑوں، دنبوں میں چھوڑ دیا جائے تو دیکھنے والا ان میں فرق نہ کر سکے تو سال سے کم عمر ہونے کے باوجود ان کی قربانی جائز ہے۔ اگر چھ ماہ سے عمر کم ہو تو کسی صورت میں قربانی درست نہیں، خواہ بظاہر کتنے ہی بڑے لگتے ہوں۔ قربانی کے جانور کے دو دانت ہو نا مذکورہ بالا عمریں ہونے کی محض ایک علامت ہے، قربانی کے لیے لازمی شرط نہیں۔ اس لیے اگر جانو رگھر کا پالتو ہو اور عمر پوری ہونے کا یقین ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔(تحفة الفقهاء، 3/84) (الجوهرة النيرة، 2/189) ۔

اگر دو دانت نہ ہوں اور فروخت کرنے والا عمر پوری بتاتا ہو اور ظاہر حال اس کی تکذیب نہ کرتا ہو، اپنے تجربہ سے عمر پوری معلوم ہو رہی ہو یا فروخت کرنے والے کی بات پر دل مطمئن ہو تو اس کی بات پر اعتماد کر لینا اور اس جانور کی قربانی کرنا جائز ہے۔

قربانی کی کم از کم مقدار:

قربانی کی کم از کم مقدار ایک چھوٹا جانور(بھیڑ، بکری) یا بڑے جانور( اونٹ، گائے، بھینس) کا ساتواں حصہ ہے۔ (تحفة الفقهاء، 3/85) ۔

 لہٰذا بڑے جانور میں کسی شریک کا حصہ اگر پورے جانور کے گوشت یا اس کی قیمت کے ساتویں حصہ سے بھی کم ہے تو کسی شریک کی بھی قربانی درست نہیں۔ البتہ اگر شرکاء سات سے کم ہوں اور بعض کا حصہ ساتویں حصہ سے زائد ہو تو کوئی مضایقہ نہیں ۔(الفتاوى الهندية، 5/304)۔

جن عیب دار جانوروں کی قربانی جائز نہیں:

1:۔جس کا ایک یا دونوں سینگ جڑ سے اکھڑ گئے ہوں۔ (حاشية  ابن عابدين، 6/323)۔

2:۔ جس بھیڑ، بکری کی پیدائشی طور پر دم نہ ہو ۔(حاشية ابن عابدين، 6/324)۔

3   :۔ اندھا جانور ۔۔(المحيط البرهاني، 6/92)

4:۔  ایسا کانا جانور جس کا کانا پن واضح نظر آتا ہو۔

5:۔ اس قدر لنگڑا جو چل کر قربان گاہ تک نہ پہنچ سکتا ہو، یعنی چلنے میں لنگڑا پاؤں زمین پر نہ ٹکتا ہو۔

6:۔ ایسا بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو۔

7:۔ جس کے پیدائشی طور پر دونوں یا ایک کان نہ ہو۔ (بدائع الصنائع، 5/75)۔

8:۔ جس کی چکتی، دم، کان یا ایک آنکھ کی بینائی کا نصف یا اس سے زیادہ حصہ جاتا رہا ہو۔

ان اعضاء کا کتنا حصہ جاتا رہا ہو تو قربانی جائز نہیں؟ اس کے بارے میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ تعالیٰ سے چار روایات ہیں:

1:۔چوتھائی۔۔ 2 :۔  تہائی۔     3 :۔ تہائی سے زیادہ۔۔ 4 :۔نصف

بعض اکابر نے تہائی والی اور بعض نے تہائی سے زائد والی روایت کے مطابق فتویٰ دیا ہے مگر علامہ شامی رحمہ اﷲ تعالیٰ نے اسی چوتھی نصف والی روایت کو ترجیح دی ہے اور صاحبین رحمہما اﷲ تعالیٰ کا قول بھی اسی کے مطابق ہے اور امام اعظم کے اسی کی طرف رجوع کا قول بھی کیا گیا ہے۔ چنانچہ علامہ شامی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:

  1. وفي البزازية: وظاهر مذهبهما أن النصف كثير اهـ. وفي غاية البيان: ووجه الرواية الرابعة وهي قولهما وإليها رجع الإمام أن الكثير من كل شيء أكثره، وفي النصف تعارض الجانبان اهـ أي فقال بعدم الجواز احتياطا بدائع، وبه ظهر أن ما في المتن كالهداية والكنز والملتقى هو الرابعة، وعليها الفتوى كما يذكره الشارح عن المجتبى، وكأنهم اختاروها لأن المتبادر من قول الإمام السابق هو الرجوع عما هو ظاهر الرواية عنه إلى قولهما والله تعالى أعلم. (حاشية ابن عابدين، 6/324) 

9:۔جس کے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثر گر جانے یا گھس جانے کی وجہ سے چارہ نہ کھاسکتا ہو ۔(الدر المختار، 1/647)۔

10:۔ جسے مرض جنون اس حد تک لاحق ہوگیا ہو کہ چارہ بھی نہ کھاسکے ۔(بدائع الصنائع، 5/76)۔

11:۔  ایسا خارشی جانور جو بہت دبلا اور کمزور ہو ۔(بدائع الصنائع، 5/76)۔

12:۔جس کی ناک کاٹ دی گئی ہو۔ (الفتاوی الھندیۃ، 5/298)۔

13:۔ جس کے تھن کاٹ دیئے گئے ہوں۔

14:۔جس کے تھن کسی بیماری کی وجہ سے اتنے خشک ہوگئے ہوں کہ ان میں دودھ نہ اُترے۔ البتہ اگر عمر بڑی ہونے اور بچہ دینے کے قابل نہ رہنے کی وجہ سے دودھ نہ آتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔

15:۔جس گائے کے دو تھن کاٹ دیئے گئے ہوں۔

16:۔جس بھیڑ، بکری کے ایک تھن کی گھنڈی (سر) جاتی رہی ہو۔

17:۔ جس اونٹنی یا گائے کے دو تھنوں کی گھنڈیاں جاتی رہی ہوں ۔(حاشیۃ ابن عابدین، 6/325) ۔

18:۔ جس گائے کی پوری یا نصف سے زیادہ زبان کاٹ دی گئی ہو (حاشیۃ ابن عابدین، 6/325)۔ اگر تہائی سے زیادہ زبان کٹ گئی ہو اور چارہ نہ لے سکتی ہو تو اس کی قربانی بھی جائز نہیں ہے۔ اگر زبان کو چارہ لینے کے لیے استعمال کر سکتی ہو تو جائز ہے۔ البتہ بکری میں زبان کا کٹ جانا کوئی عیب نہیں  کیوں کہ بکری اور بھیڑ دانتوں سے چارہ لیتی ہیں۔

19:۔جلالہ یعنی جس جانور کی غذا صرف نجاست اور گندگی ہو ۔(الدر المختار، 1/647)۔

20:۔ایسا لاغر اور دبلا جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو ۔(بدائع الصنائع، 5/75)۔

21:۔ جس کا ایک پاؤں کٹ گیا ہو۔ (الفتاوی الھندیۃ، 5/299)۔

22:۔ خنثیٰ جانور جس میں نر و مادہ دونوں کی علامات ہوں ۔(حاشیۃ ابن عابدین، 6/325)۔

جن جانوروں کی قربانی جائز، مگر خلاف ِاولیٰ ہے:

          1:۔جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں۔

          2:۔جس کے سینگ ٹوٹ گئے ہوں، مگر ٹوٹنے کا اثر جڑ تک نہ پہنچا ہو۔

          3:۔اتنا بوڑھا جو جفتی پر قادر نہ ہو۔

          4:۔ایسی گائے وغیرہ جو بڑھاپے کے سبب بچے جننے سے عاجز ہو۔

          5:۔حاملہ یا بچے والی اونٹنی، گائے یا بکری ۔۔(البحر الرائق، 8/195)۔

          6:۔جس کے تھنوں میں بغیر کسی بیماری کے دودھ نہ اُترتا ہو۔

          7:۔جسے کھانسی ہو۔

          8:۔جسے داغا گیا ہو۔

9:۔وہ بھیڑ بکری جس کی دم پیدائشی طور پر بہت چھوٹی ہو۔

10:۔ایسا کانا جس کا کانا پن پوری طرح واضح نہ ہو۔

11:۔لنگڑا جو چلنے پر قادر ہو، یعنی چوتھا پاؤں بھی زمین پر رکھتا ہو اور چلنے میں اس سے مدد لیتا ہو۔

12:۔بیمار جس کی بیماری زیادہ ظاہر نہ ہو۔

13:۔جس کے کان، چکتی، دم یا بینائی کا نصف سے کم حصہ جاتا رہا ہو۔(سابقہ تفصیل پیش نظر رہے) ۔ (الفتاوى الهندية، 5/298)۔

14:۔جس کے کچھ دانت نہ ہوں، مگر وہ چارہ کھاسکتا ہو ۔(الفتاوى الهندية، 5/298)۔

15:۔مجنون جس کا جنون اس حد تک نہ پہنچا ہو کہ چارہ نہ کھاسکے۔

16:۔خارشی جو فربہ یعنی موٹا تازہ ہو۔

17:۔جس کا کان چیردیا گیا ہویا کاٹ دیا گیا ہو، مگر نصف سے کم، اگر دونوں کانوں کا کچھ حصہ کاٹ دیا گیا ہو اور دونوں کے کٹے ہوئے اجزاء کا مجموعہ نصف کے برابر ہوتو احتیاطاً اس کی قربانی نہ کی جائے، اگر کسی نے کردی تو ہوجائے گی۔(الفتاوى الهندية، 5/298)۔

18:۔بھینگا۔

19:۔بھیڑ یا دنبہ جس کی اون کاٹ دی گئی ہو ۔(الفتاوى الهندية، 5/298)۔

20:۔ بکری جس کی زبان کٹ گئی ہو، بشرطیکہ چارہ بآسانی کھاسکتی ہو  (الفتاوى الهندية، 5/298)۔

21:۔ جلالہ اونٹ، جسے چالیس دن باندھ کر چارہ کھلایا جائے (الفتاوى الهندية، 5/298)۔

22؛۔ دبلا جانور جو بہت لاغر اور کمزور نہ ہو (فتاوى قاضي خان)۔

مذکورہ بالا جانوروں کی قربانی جائز ہے، مگر مکروہِ تنزیہی ہے۔ مستحب یہ ہے کہ قربانی کا جانور تمام عیوب سے پاک ہو۔

ذبح کے لیے گراتے ہوئے عیب پیدا ہوگیا:

جانور کو ذبح کے لیے لایا گیا اور گراتے ہوئے اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی، یا اور کوئی عیب پیدا ہوگیا، مثلاً: گائے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور اسی اثناء میں اس کی آنکھ پھوٹ گئی، پھر اسے پکڑ کر ذبح کردیا گیا تو قربانی درست ہوگئی۔ ذبح کرتے ہوئے چھری ہاتھ سے چھوٹ کر آنکھ وغیرہ ضائع کردے تو بھی یہی حکم ہے۔(تحفۃ الفقہاء، 3/86)۔

جانور خریدنے کے بعد عیب دار ہوگیا:

اگر کسی نے قربانی کے لیے جانور خریدا، پھر ذبح کے لیے لانے سے پہلے ایسا عیب پیدا ہوگیا جس کے ہوتے ہوئے اس کی قربانی جائز نہیں تو مالدار پر ضروری ہے کہ وہ دوسرے بے عیب جانور کی قربانی کرے۔ فقیر پر تبدیل کرنا ضروری نہیں۔ وہ اسی معیوب جانور کی قربانی کرسکتا ہے، مگر بسہولت ہوسکے تو وہ دوسرے جانور کی قربانی کرے۔

البتہ اگر فقیر نے زبان سے نذر مان کر قربانی اپنے اوپر واجب کی تھی، کوئی جانور خریدا نہیں تھا یا معین نہیں کیا تھا، پھر کوئی بے عیب جانور خریدا اور اس میں ذبح سے پہلے کوئی عیب پیدا ہو گیا تو اس پر بھی دوسرے بے عیب جانور کی قربانی واجب ہے ۔

قربانی او رذبح کے مستحبات و آداب:

قربانی کا جانور موٹاتازہ ہو:

مستحب یہ کہ قربانی کا جانور خوب فربہ، خوبصورت اور بڑی جسامت کا ہو۔  (بدائع الصنائع، 5/80) چھوٹے جانوروں میں سب سے بہتر سینگوں والا سفید یا چتکبرا خصی مینڈھا ہے۔(بدائع الصنائع، 5/80)۔

تیزدھار آلہ:

مستحب یہ ہے کہ جانور کو تیز دھار آلہ سے ذبح کرے، کند چھری سے ذبح نہ کرے۔ (بدائع الصنائع، 5/80)۔

کھال جسم ٹھنڈا ہونے کے بعد اُتارے:

مستحب یہ ہے کہ ذبح کرنے کے بعد اتنی دیر ٹھہر جائے کہ جانور کے تمام اعضاء سے جان نکل جائے، جسم ساکن اور ٹھنڈا ہو جائے، ٹھنڈا ہونے سے پہلے کھال اتارنا یا گوشت کاٹنا مکروہ ہے۔(بدائع الصنائع، 5/80) ۔

خود ذبح کرنا افضل ہے:

اگر اچھے طریقے سے ذبح کرنا جانتا ہو تو افضل یہ ہے کہ اپنے ہاتھ سے ذبح کرے۔

اگر خود تجربہ نہ رکھتا ہو تو بہتر یہ ہے کہ دوسرے سے ذبح کروائے مگر خود بھی موجود رہے ۔(بدائع الصنائع، 5/79)۔

جانور کو قبلہ رخ لٹانے کے بعد یہ دعاء پڑھنا بہتر ہے:

اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ.(الانعام :79)
قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لاَ شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْن. (الانعام:162)۔(صحیح ابن خزیمۃ، 4/287)

مکروہات:

مندرجہ ذیل امور مکروہ ہیں: ۔(الفتاوي الهندية، 5/287)

1:۔لوہے کے بغیر کسی دوسرے آلہ سے ذبح کرنا۔

2:۔کند چھری سے ذبح کرنا۔

3:۔جانور کو لٹانے کے بعد چھری تیز کرنا۔

4:۔جانور کے سامنے چھری تیز کرنا۔

5:۔جانور کو کسی قسم کی تکلیف پہنچانا، جیسے ٹھنڈا ہونے سے پہلے کھال اُتارنا یا سرکاٹنا۔

6:۔قبلہ رخ ہوئے بغیر ذبح کرنا۔

7:۔حلق کے بجائے گدی کی طرف سے ذبح کرنا۔

یہ کراہت اس صورت میں ہے کہ گدی کی طرف سے چھری چلا کر ایک ہی دفعہ میں رگیں بھی کاٹ دے۔ اگر صرف گدی کاٹی، رگیں نہ کاٹیں اور جانور مر گیا یا گدی کاٹ کر وقفہ کیا، حتیٰ کہ جانور مرنے کو آگیا، پھر دوبارہ چھری چلا کر رگیں کاٹ دیں اور جانور نے اس طرح حرکت نہ کی جس طرح عموماً ذبح کے بعد جانور کرتا ہے تو جانور حلال نہ ہوگا بلکہ مردار ہو گا۔

قال فی الدر: (وذبحها من قفاها) إن بقيت حية حتى تقطع العروق وإلا لم تحل لموتها بلا ذكاة (والنخع) بفتح فسكون: بلوغ السكين النخاع، وهو عرق أبيض في جوف عظم الرقبة (الدر المختار، 1/640)۔

8:۔چھری ایسی بے احتیاطی سے چلانا کہ حرام مغز تک پہنچ جائے یا گردن کٹ کر الگ ہوجائے۔

واضح رہے کہ اس سے جانور حرام نہ ہوگا، نہ سری حرام ہوگی، صرف یہ فعل مکروہ ہے او رحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اس کی ممانعت منقول ہے:

أن ابن عمر، نهى عن النخع، يقول: "يقطع ما دون العظم، ثم يدع حتى تموت (صحیح بخاري، 7/93)۔

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                         مفتی محمد

                                                                      دار الافتاء جامعۃ الرشید احسن آباد کراچی