021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
احکام عشرہ ٔ ذی الحجہ و عید الاضحیٰ

عشرۂ ذی الحجہ میں بال اور ناخن نہ کاٹنا مستحب ہے:

حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا: جب عشرۂ ذی الحجہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو قربانی کرنے تک وہ جسم کے کسی حصہ کے بال نہ لے اور ناخن نہ کاٹے ۔

یہ استحبابی حکم صرف قربانی کرنے والوں کے ساتھ خاص ہے، جیسا کہ حدیث کے الفاظ میں اس کی صراحت ہے، وہ بھی اس شرط سے کہ زیر ناف اور بغلوں کی صفائی اور ناخن کاٹے ہوئے چالیس روز نہ گذرے ہوں۔ اگر چالیس روز گذر گئے ہوں تو بالوں کی صفائی اور ناخن کاٹنا واجب ہے۔

تکبیرات ِتشریق:

تکبیرات تشریق یعنی ’’ﷲ اکبر، ﷲ اکبر، لا الہ الا ﷲ وﷲ اکبر، ﷲ اکبر وللہ الحمد‘‘یوم عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد پڑھنا مفتی بہ قول کے مطابق واجب ہے۔ بعض لوگ تین دفعہ پڑھنے کو ضروری سمجھتے ہیں جو غلط ہے، ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے۔

تکبیراتِ تشریق مرد، عورت، مقیم و مسافر سب پر واجب ہیں:

مفتی بہ قول کے مطابق مذکورہ تاریخوں میں تکبیرات تشریق کا پڑھنا جماعت سے نماز پڑھنے والے اور تنہا نماز پڑھنے والے، شہری اور دیہاتی، مقیم اور مسافر، مرد اور عورت سب پر واجب ہے۔ البتہ مرد متوسط بلند آواز سے پڑھے اور عورت آہستہ۔ بہت سے لوگ اس میں غفلت کرتے ہیں، پڑھتے ہی نہیں یا آہستہ پڑھ لیتے ہیں، اس کی اصلاح ضروری ہے۔

تکبیرات کہنا بھول گیا تو کیا کرے؟

سلام کے متصل بعد تکبیرات بھول جانے کی صورت میں اگر نماز کے منافی کوئی کام نہیں کیا تو یاد آنے پر تکبیرات کہہ دینی چاہئیں اور اگر نماز کے منافی کوئی کام کرلیا مثلاً آواز سے ہنس پڑا، عمداً وضوء توڑ دیا، عمداً یا سہواً کلام کر لیا، مسجد سے نکل گیا، میدان میں نماز پڑھی اور صفوں سے باہر نکل گیا تو تکبیرات فوت ہوگئیں، اب کہنے سے واجب ادا نہیں ہوگا، اس پر استغفار ضروری ہے۔

فوت شدہ نماز کی قضاء کے بعد تکبیرات:

ایام تشریق کی کوئی فوت شدہ نماز اسی سال ایام تشریق میں قضاء کرے تو اس کے بعد بھی تکبیرات تشریق کہنا واجب ہے۔البتہ اگر ایام تشریق سے پہلے کی کوئی نماز ایام تشریق میں قضاء کرے یا ایام تشریق کی کوئی فوت شدہ نماز ایام تشریق کے بعد قضاء کرے تو تکبیرات نہ کہے۔

احکام عید الاضحیٰ

یوم عید الاضحیٰ کے مسنون اعمال:

عید الاضحیٰ کے دن مندرجہ ذیل کام مسنون ہیں :

•        مسواک کرنا

•        غسل کرنا

•        پاک و صاف عمدہ کپڑے جو میسر ہوں پہننا

•        خوشبو لگانا

•        عید کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا

•        عید کی نماز کو جاتے ہوئے تکبیرات تشریق بآواز بلند کہنا

•        عید گاہ پیدل جانا

•        عید گاہ سے واپس پہلا راستہ بدل کر آنا

•        عید گاہ پہنچ کر تکبیرات ختم کردینا

•        اگر میسر ہو تو قربانی کے گوشت سے کھانے کی ابتداء کرنا۔ لیکن واضح رہے کہ یہ آخری حکم صرف دسویں تاریخ کے ساتھ خاص ہے۔

عید گاہ شہر سے باہر ہونا مسنون ہے:

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عیدین کی نماز ہمیشہ شہر سے باہر نکل کر ادا فرماتے تھے۔ صرف ایک مرتبہ بارش کی وجہ سے باہر تشریف نہیں لے جاسکے ۔

اس لیے عیدگاہ کا شہر سے باہر ہونا سنت ہے۔ اس طرح اجتماعِ عظیم میں شوکت اسلام کا مظاہرہ بھی ہے،مگر بڑے بڑے شہروں میں چونکہ باہر نکل کر عید کی نماز پڑھنا مشکل ہے اس لیے شہر کے اندر بڑے میدان یا بوقت ضرورت مسجد میں نماز ادا کرنا بلا کراہت جائز ہے۔ البتہ حتی الامکان ہر محلہ میں چھوٹے چھوٹے اجتماعات کے بجائے ایک مقام یا چند مقامات پر بڑے اجتماع کی کوشش کی جائے۔

نمازِ عید سے قبل نفل پڑھنا مکروہ ہے:

نماز عید سے پہلے نفل پڑھنا مطلقاً مکروہ ہے، خواہ گھر میں پڑھے یا عیدگاہ میں، حتیٰ کہ عورت بھی گھر میں نفل پڑھنا چاہے تو نماز عید کے بعد پڑھے اور نماز عید کے بعد فقط عید گاہ میں نفل پڑھنا مکروہ ہے۔

نمازِ عید سے پہلے قضاء نماز پڑھنا جائز ہے:

قضاء نماز عید سے پہلے گھر میں پڑھ سکتے ہیں، اگر کسی کی اسی روز کی فجر کی نماز قضاء ہوگئی تو نماز عید سے پہلے اس کی قضاء پڑھ لینے میں کوئی مضایقہ نہیں، اگرچہ صاحب ترتیب کے لیے اسے نماز عید سے پہلے پڑھنا ضروری بھی نہیں، فجر پڑھے بغیر بھی اس کی نماز عید درست ہے، اسی طرح سابقہ نمازوں کی قضاء بھی نماز عید سے پہلے پڑھی جاسکتی ہے، مگر بہتر ہے کہ نماز عید کے بعد پڑھی جائے۔

نمازِ عید کا وقت:

آفتاب طلوع ہو کر بقدر نیزہ بلند ہو جائے تو نماز عیدین کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور زوال (یعنی آفتاب کے عین سر پر آنے) تک رہتا ہے(یہ وقت ہر موسم اور علاقے کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے اور کوئی ایک وقت سب جگہوں اور موسموں کے لیے نہیں بتایا جاسکتا)۔ اگر دوران نماز وقت ختم ہوگیا تو نماز عید نہ ہوئی بلکہ یہ رکعتیں نفل ہو جائیں گی۔

مستحب یہ ہے کہ نماز عید الاضحیٰ جلد ادا کی جائے تاکہ لوگ جلد قربانی کرسکیں اور نماز عید الفطر قدرے تاخیر سے ادا کی جائے تاکہ لوگ نماز سے پہلے صدقہ الفطر ادا کرسکیں۔

اگر نمازِ عید پہلے روز ادا نہ کی جاسکے:

اگر شدید بارش یا اور کسی عذر سے نماز عید الفطر پہلے روز ادانہ کی جاسکی یا نماز تو پڑھی مگر وقت گذرنے کے بعد معلوم ہوا کہ نماز نہیں ہوئی تھی، مثلاً امام کا وضوء نہیں تھا یا وقت نکل جانے کے بعد پڑھی گئی تو دوسرے روز زوال سے پہلے ادا کی جائے۔  اگر کسی عذر سے تیسرے روز تک مؤخر ہوگئی تو اب نماز جائز نہیں اور بلاعذر دوسرے روز تک مؤخر کی گئی تو بھی پڑھنا جائز نہیں۔البتہ نماز عیدالاضحیٰ کسی عذر سے رہ گئی تو تیسرے روز بھی زوال تک ادا کی جاسکتی ہے اور بلا عذر مؤخر کی گئی تو بھی تیسرے روز پڑھی جاسکتی ہے مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔

نمازِ عید کا طریقہ:

صفیں اچھی طرح درست کرنے کے بعد دل میں یہ نیت کریں کہ اس امام کی اقتداء میں نماز عید ادا کرتا ہوں ۔زبان سے نیت کے مخصوص الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں، بلکہ اسے ضروری سمجھنا بدعت ہے۔

نمازِ عید دو رکعت ہے:

نمازِ عید دو رکعت ہے اور ہر رکعت میں تین تین تکبیرات زائد ہیں۔  یہ تکبیرات پہلی رکعت میں ثناء کے بعد قراء ت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قراء ت کے بعد رکوع سے پہلے ہوتی ہیں۔ تمام تکبیرات میں کانوں تک ہاتھ اٹھائیں۔ پہلی رکعت میں دو زائد تکبیرات کے بعد ہاتھ چھوڑدیں اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لیں۔ دوسری رکعت کی تینوں زائد تکبیرات میں ہاتھ کانوں تک لے جا کر چھوڑدیں اور چوتھی تکبیر کہتے ہوئی رکوع میں جائیں۔

خطبہ سننا واجب ہے:

سلام کے بعد تکبیرات تشریق پڑھیں پھر اطمینان سے بیٹھ کر خطبہ سنیں۔ عید کا خطبہ فی نفسہ سنت مؤکدہ ہےاور خطیب کا خطبہ نہ دینا یا مقتدیوں کا خطبہ سنے بغیر عیدگاہ سے چلے جانا مکروہ ہے۔ جب خطبہ شروع ہو جائے تو اس کو سننا واجب ہے اور آپس میں بات چیت کرنا یا کسی اور کام میں مشغول ہونا جائز نہیں۔

خطبۂ عید کا مستحب طریقہ:

عموماً خطباء حضرات خطبہ کی ابتداء و انتہاء میں تکبیرات نہیں کہتے یا تکبیرات تشریق ایک مرتبہ کہہ دیتے ہیں۔  یہ طریقہ خلافِ اولیٰ ہے۔ مستحب طریقہ یہ ہے کہ پہلے خطبہ کی ابتداء میں نو بار، دوسرے خطبہ کی ابتداء میں سات بار اور بالکل آخر میں چودہ بار مسلسل تکبیرات یعنی ’’اللہ اکبر ‘‘کہا جائے۔

عید کی نماز کے لیے جماعت شرط ہے:

اگر کوئی شخص نماز عید کی جماعت میں نہ پہنچ سکا تو اکیلے اس کی قضاء نہیں پڑھ سکتا، البتہ اگر گھر لوٹ کر چار رکعت نفل پڑھ لے تو بہتر ہے۔

اگر کئی آدمیوں کی نماز عید رہ جائے:

اگر کئی آدمیوں کی نماز عید رہ گئی تو کسی دوسری مسجد یا عید گاہ میں جہاں پہلے عید کی نماز نہ ہوئی ہو اپنی الگ جماعت کر کے نماز عید پڑھ سکتے ہیں، ایسی مسجد یا عید گاہ نہ ملے تو کسی دوسری جگہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔

اگر کسی کی تکبیرات رہ جائیں:

جو شخص امام کے تکبیرات سے فارغ ہو کر قراء ت شروع کرنے کے بعد پہنچا وہ نیت باندھ کر پہلے زائد تکبیرات کہہ لے۔ امام کو رکوع میں پایا تو اگر رکوع نکل جانے کا اندیشہ نہ ہو تو پہلے زائد تکبیرات کہے پھر رکوع میں جائے اور اگر رکوع نکل جانے کا اندیشہ ہو تو تکبیرۂ تحریم کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور ہاتھ اٹھائے بغیر رکوع ہی میں تینوں تکبیرات کہہ لے اور رکوع کی تسبیح "سبحان ربی العظیم" بھی پڑھ لے۔ دونوں کا جمع کرنا ممکن نہ ہو تو صرف تکبیرات کہے اور تسبیحات چھوڑ دے کیوں کہ تکبیرات واجب اور تسبیحات سنت ہیں۔ اگر تکبیرات پوری کہنے سے پہلے ہی امام نے رکوع سے سر اٹھا لیا تو بقیہ تکبیرات چھوڑ کر امام کا اتباع کرے۔

امام کو دوسری رکعت کے رکوع میں پایا:

اگر امام کو دوسری رکعت کے رکوع میں پایا تو بعینہ وہی تفصیل ہے جو اوپر درج کی گئی۔ البتہ امام کے سلام کے بعد جب فوت شدہ رکعت ادا کرے گا تو پہلے قراء ت کرے پھر تکبیرات کہے۔

اگر کسی کی دونوں رکعتیں نکل جائیں:

اگر کسی کی دونوں رکعتیں نکل گئیں لیکن سلام سے پہلے پہلے امام کے ساتھ شامل ہوگیا تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اٹھ کر حسب قاعدہ دونوں رکعتیں پڑھے اور تکبیرات اپنے اپنے مقام پر یعنی پہلی رکعت میں ثناء کے بعد قراء ت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قراء ت کے بعد رکوع سے پہلے کہے۔

دوسری رکعت میں تکبیرات کو قراء ت سے مؤخر کرنا واجب نہیں:

دوسری رکعت میں تکبیرات زائدہ کو قراء ت سے مؤخر کرنا اولی ہے، واجب نہیں۔ لہٰذا اگر امام نے غلطی سے یہ تکبیرات قراء ت سے پہلے کہہ دیں تو بھی نماز بلا کراہت ہوگئی۔

امام تکبیرات بھول کر رکوع میں چلا گیا:

اگر امام تکبیرات زائدہ بھول کر رکوع میں چلا گیا تو یاد آنے پر رکوع ہی میں یہ تکبیرات کہہ لے، رکوع چھوڑ کر قیام کی طرف نہ لوٹے لیکن اگر امام رکوع چھوڑ کر لوٹ آیا اور تکبیرات کہہ کر پھر رکوع کرلیا تو بھی نماز ہو جائے گی۔

نمازِ عید میں سجدہ سہو:

عام نمازوں کی مانند جمعہ و عیدین میں بھی ترک واجب و تأخیر فرض سے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے، لیکن نماز جمعہ و عیدین میں بلکہ کسی بھی نماز میں مجمع بہت زیادہ ہو اور سجدۂ سہو کرنے سے لوگوں میں فساد و انتشار کا اندیشہ ہو تو بہتر ہے کہ سجدۂ سہو نہ کیا جائے۔

اگر کوئی شخص بیرون ملک نماز عید پڑھ کر آیا:

اگر کوئی شخص کسی بیرونی ملک میں نماز عید پڑھ کر آیا تو وہ پاکستان پہنچ کر نماز عید کی امامت کرسکتا ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ عید کی امامت نہ کرے بلکہ بصورت اقتداء نماز عید ادا کرے۔

مفتی محمد 

جامعۃ الرشید احسن آباد کراچی