84002 | طلاق کے احکام | طلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
اگر ایک آدمی نے اپنے گزن کو فون کرکے یعنی واٹسپ میسج کرکے یہ کہا کہ آپ کی بہن فحش بدکاری میں مبتلاہے،اس پر اس نے کہاکہ آپ جھوٹ بول رہے ہو،جس پر بندہ نے کہا کہ اگرمیں جھوٹ بولتاہوں تو مجھ پر میری بیوی طلاق ہو،جبکہ اس لڑکی کے متعلق پورا محلہ یہ کہتاہے کہ یہ بدکرداراوربدکاری میں ملوث ہے،اسی وجہ سے کوئی اس لڑکی سے نکاح بھی نہیں کرتا،اس کی عمرتقریبا 27سال سے اوپرہے ،مغربی لباس پہنتی ہے،جن لوگوں نے اس لڑکی سے بدکاری کی ہے وہ خود بھی اعترف کررہے ہیں،لہذا پوچھنایہ ہے کہ
اس آدمی نے جو لڑکی کی بدکاری کے ساتھ اپنی بیوی کی طلاق معلق کی ہے کیا وہ طلاق واقع ہوگی یانہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگراس کی بات جھوٹی ہے یعنی واقع کے مطابق نہیں ہے تو اس کی بیوی کو ایک طلاق ِ رجعی ہوگی اوراگروہ اس کی بات جھوٹی نہیں ہے تو پھر اس کی بیوی کو کوئی طلاق نہیں ہوگی،تاہم کسی کی بہن کے بارے میں اگرچہ مذکورہ برائی اس کے اندرہوبھی اس طرح کی بات کرنا شرعاً مناسب نہیں ہے،اسلام برائیوں کو چھپانے اورپردہ پوشی کاحکم کرتاہے، اوراگرمذکورہ برائی اس میں نہ ہوتو اسلام میں ایسی بات کرنا تہمت کے زمرے میں آتاہے اورتہمت لگانا سخت گناہ ہے اوراگراسلامی حکومت ہو اوریہ شخص اپنے دعوی پر چارعینی گواہ پیش نہ کرسکے تواس پر حدِّقذف کے 80کوڑے لگتے ہیں ۔
حوالہ جات
وفی الفتاوى الهندية (1/ 448):
رجل قال: إن كذبت فامرأتي طالق فسئل عن أمر فحرك رأسه بالكذب لا يحنث في يمينه ما لم يتكلم كذا في فتاوى قاضي خان.
وفی الفتاوى الهندية (2/ 52):
وأما الحلف بالطلاق، والعتاق، وما أشبه ذلك فما يكون على أمر في المستقبل فهو كاليمين المعقود، وما يكون على أمر في الماضي فلا يتحقق اللغو، والغموس، ولكن إذا كان يعلم خلاف ذلك، أو لا يعلم فالطلاق واقع.
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 705):
(إن حلف على كاذب عمدا).... (و) ثانيها (لغو) لا مؤاخذة فيها إلا في ثلاث طلاق وعتاق ونذر أشباه، فيقع الطلاق على غالب الظن إذا تبين خلافه.
وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من ستر مسلما ستره الله في الدنيا والآخرة ) رواه ابن ماجه وصححه الألباني)
. قال ابن حجر ": قوله: (ومن ستر مسلماً) أي: رآه على قبيح فلم يظهره ـ أي للناس ـ، وليس في هذا ما يقتضي ترك الإنكار عليه فيما بينه وبينه".
وقال المناوي: "(من ستر أخاه المسلم في الدنيا) في قبيح فعله، وقوله(فلم يفضحه) بأنِ اطَّلع منه على ما يشينه (يعيبه) في دينه أو عِرْضِه أو ماله أو أهله فلم يهتكه ولم يكشفه بالتحدث، (ستره الله يوم القيامة) أي: لم يفضحه على رؤوس الخلائق بإظهار عيوبه وذنوبه، بل يسهل حسابه ويترك عقابه، لأن الله حَيي كريم، وستر العورة من الحياء والكرم".
وفی کنز العمال:
'' عن علي قال: البهتان على البراء أثقل من السموات. الحكيم''. (كنز العمال رقم الحدیث: 8810)
وفی صحیح البخاري:
لا یرمي رجلٌ رجلاً بالفسوق ولا یرمیه بالکفر إلا ارتدت علیه إن لم یکن صاحبه کذلک. (البخاري، باب ما ینهی عن السباب واللعن، ۲؍۸۹۳رقم:۵۸۱۰، مشکاة المصابیح۴۱۱)
وفی مرقاۃ المفاتیح :
'' عن ابن عباس مرفوعاً: «لكن البينة على المدعي واليمين على من أنكر»۔ قال النووي: هذا الحديث قاعدة شريفة كلية من قواعد أحكام الشرع، ففيه: أنه لا يقبل قول الإنسان فيما يدعيه بمجرد دعواه، بل يحتاج إلى بينة، أو تصديق المدعى عليه''۔(7/250، باب الاقضیہ والشہادات، ط :امدادیہ)
قال اللہ تعالی :
{وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (4) إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ} [النور: 4، 5]
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
26/11/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |