03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فون پر بیوی سے دو مرتبہ "تجھے طلاق” کہنا
84626طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی کو فون پر کہا کہ تجھے طلاق،تجھے طلاق،یہ الفاظ دو مرتبہ بولے،اس کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ الفاظ (تجھے طلاق،تجھے طلاق) کہنے سے اس شخص کی بیوی کو دو رجعی طلاقیں واقع ہوگئی ہیں،جن کے بعد عدت گزرنے سے پہلے شوہر کو قولی یا عملی  دونوں طور پر رجوع کا حق حاصل ہے،لیکن قولی طور پر رجوع کرنا اور اس پر گواہ بنالینا بہتر ہے،تجدیدِنکاح کی ضرورت نہیں،البتہ عدت گزرنے کے بعد پھر نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا پڑے گا۔

اوررجوع کے بعد شوہر کے پاس فقط ایک طلاق کا اختیار ہوگا جس کے بعد بیوی حرمت غلیظہ کے ساتھ اس پر حرام ہوجائے گی۔

حوالہ جات

"الدر المختار " (3/ 397):

"باب الرجعة،بالفتح وتكسر يتعدى ولا يتعدى (هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) أي عدة الدخول حقيقة؛إذ لا رجعة في عدة الخلوة ابن كمال، وفي البزازية: ادعى الوطء بعد الدخول وأنكرت فله الرجعة لا في عكسه.

وتصح مع إكراه وهزل ولعب وخطإ (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة".

قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ: "(قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائما قبل انقضائها. اهـ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

16/صفر 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب