85621 | طلاق کے احکام | بچوں کی پرورش کے مسائل |
سوال
میرے بھائی وفات پا گئے ہیں ان کے ورثہ میں والدہ، اہلیہ اور پانچ بچے شامل ہیں جن میں ایک بیٹا اور چار بیٹیاں ہیں۔وراثت میں ایک پلاٹ 10 مرلے جس کی مالیت 30 لاکھ روپے ہے اور 16 لاکھ روپے فنڈ جو حکومت کی طرف سے ملا ہے ۔مرحوم سرکاری ملازم تھے ۔بچوں کی پرورش کے بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ ان کی سرپرستی کا حقدار کون ہوگا چچا یا والدہ ہو گی کیونکہ مقامی عدالت نے والدہ کو سرپرست مقرر کیا ہے۔
سائل سے تنقیح کے بعد یہ واضح ہوا کہ بیٹے کی عمر19سال ، بیٹیوں کی عمر17,14,8,6سال ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
لڑکے کی پرورش سات سال تک ،جبکہ لڑکی کی پرورش کا نو سال تک ماں کو حق حاصل ہوتا ہے،البتہ اگر اس دوران ماں نے کسی ایسے مردسے نکاح کرلیا جو بچے کا محرم رشتہ دار نہ ہو تو اس کی پرورش کا حق ختم ہوجاتاہے،اس کے بعد بلوغت تک ولی کو بچے اپنے پاس رکھنے کا حق ہے،بلوغت کے بعد بچے جس کے ساتھ رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں۔
صورت مسئولہ میں بالغ بیٹے پر چچا کو پرورش کا حق نہیں۔نیز بڑے بھائی کی موجودگی میں نابالغ بچوں پر بھی چچا کو حق پرورش حاصل نہیں ، تاہم چچاخاندانی بڑا ہونے کی حیثیت سے اکرام کے مستحق ہیں اور وہ بچوں کی بہتری کے لیے مشورے بھی دے سکتے ہیں۔
مرحوم نے بوقت انتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال، جائیداد، سونا ،چاندی، نقدی اور ہر قسم کاچھوٹا بڑا جو ساز وسامان چھوڑا ہے اور ان کا وہ قرض جوکسی کے ذمہ واجب ہو، یہ سب ان کا ترکہ ہے۔ اس میں سے ان کے کفن دفن کے متوسط اخراجات نکالنے، ان کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے اور کل ترکہ کے ایک تہائی کی حد تک ان کی جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے وہ سوال میں مذکور ورثہ کے درمیان تقسیم ہوگا جس میں سے بیوی کو 12.5% مرحوم کی والدہ کو 16.66%اور بیٹے کو23.611%اور ہر بیٹی کو11.805فیصد حصہ دیا جائے۔
حوالہ جات
قال الله تعالى: {يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ}[النساء:11]
قال الله تعالى :{وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ}[النساء:12]
أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة... وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى... وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا، ثم لأخ الأب وأم، ثم لأب، ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب وكذا من سفل منهم، ثم العم لأب وأم...والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين وقال القدوري حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين والفتوى على الأول والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض وفي نوادر هشام عن محمد رحمه الله تعالى إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق وهذا صحيح هكذا في التبيين... وبعدما استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب.(الفتاوى الهندية:(564/1
الحضانة تكون للنساء في وقت وتكون للرجال في وقت... أحق النساء من ذوات الرحم المحرم بالحضانة الأم...ومنها أن لا تكون ذات زوج أجنبي من الصغير... ومنها: عدم ردتها... الأم والجدتان أحق بالغلام حتى يستغني عنهن فيأكل وحده ويشرب وحده ويلبس وحده كذا ذكر في ظاهر الرواية، وذكر أبو داود بن رشيد عن محمد ويتوضأ وحده يريد به الاستنجاء أي ويستنجي وحده ولم يقدر في ذلك تقديرا وذكر الخصاف سبع سنين أو ثمان سنين أو نحو ذلك.وأما الجارية فهي أحق بها حتى تحيض كذا ذكر في ظاهر الرواية وحكى هشام عن محمد حتى تبلغ أو تشتهي... وأما التي للرجال فأما وقتها فما بعد الاستغناء في الغلام إلى وقت البلوغ وبعد الحيض في الجارية إذا كانت عند الأم أو الجدتين... وأما شرطها فمن شرائطها العصوبة فلا تثبت إلا للعصبة من الرجال ويتقدم الأقرب فالأقرب الأب ثم الجد أبوه وإن علا ثم الأخ لأب وأم ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم.
(بدائع الصنائع:(41/4
أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح وبعد الفرقة الأم... النساء أحق بالحضانة ما لم يستغن الصغيرة فإن استغنى بأن كان يأكل وحده ويشرب وحده ويلبس وحده وفي رواية ويستنجي وحده فالأب بالغلام أولى والأم بالجارية حتى تحيض وعن مُحَمَّد رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى حتى تبلغ حد الشهوة.
(فتاوى قاضي خان:(206/1
انس رشیدولد ہارون رشید
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
/23جمادی الاولی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | انس رشید ولد ہارون رشید | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |