85699 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | دلال اور ایجنٹ کے احکام |
سوال
السلام علیکم میں ایک گورنمنٹ ہسپتال میں ڈاکٹر ہوں ۔ہمارے پاس بعض اوقات مریض رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی، اِس لیے ہمیں اُنہیں یا تو لاہور ریفر کرناپڑتا ہے ،یا پرائیویٹ ہسپتال۔
توکیا اس صورت میں ہم مریض کوپرائیویٹ ہسپتال میں ریفر کرنے کاکمیشن لے سکتے ہیں ؟جبکہ مریض خود پرائیویٹ ہسپتال جانے پر راضی بھی ہو۔اور دوسری صورت اگر ہم خود پرائیویٹ ہسپتال میں پیشنٹ کا علاج کریں تو پھر کیا حکم ہوگا؟جزاکم اللہ خیرا
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکور ہ صورت میں آپ کا اپنی ملازمت کی جگہ پررہتے ہوئےسرکاری ہسپتال میں جگہ نہ ہونے پر مریض سے عذر کرنا ،اورپھر ایمانداری کے ساتھ پرائیویٹ ہسپتال کی جانب مریض کی راہ نمائی کرنا، پھر اس ہسپتال سے متعین اجرت وصول کرنا درست ہےبشرط یہ کہ وہاں مریض کا علاج بھی بہترین اور مناسب قیمت پر ہو،اورعلاج کےاخراجات میں کسی قسم کا کوئی اضافی خرچہ نہ ہواور نہ ہی مریض کے ساتھ کوئی دھوکہ وفریب ہو۔اور اس صورت میں آپ کا کمیشن بھی پرائیویٹ ہسپتال والوں کے ساتھ پہلے سے متعین ہونا چاہیے۔
حوالہ جات
قال الله تعالى: وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان واتقوا الله إن الله شديد العقاب).المائدة،الآیۃ: 2(
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله:والدلالة ليست بعمل يستحق به الأجر فلا يجب الأجر وإن خصص بأن قال لرجل بعينه إن دللتني عليه جعلك كذا، مشی له ودله يجب أجرالمثل فی المشی لأن ذلك عمل يستحق بعقدالإجارة إلا أنه غير مقدر بقدر فيجب أجرالمثل وإن دله بلا مشی فهو والأول سوآء…....
(رد المحتار: /4280,281)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله::ولو قال اشتر هذه الجارية بألف درهم كان مشورة والشراء للمأمور إلا إذا زاد، على أن أعطيك لأجل شرائك درهما؛ لأن اشتراط الأجر له يدل على الإنابة. وأفاد أنه ليس كل أمر توكيلا بل لا بد مما يفيد كون فعل المأمور بطريق النيابة عن الآمر فليحفظ اهـ." (رد المحتار:504/9)
قال العلامة نظام الدين رحمه الله تعالى عليه:وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل وما تواضعوا عليه أن من كل عشرة دنانير كذا فذلك حرام عليهم. كذا في الذخيرة. )الفتاوى العالمكيرية 450/4:)
قال العلامۃ برھان الدین رحمہ اللہ : إذا قال الرجل: بع هذا المتاع ولك درهما أو قال: أشتر لي هذا المتاع ولك درهم، ففعل فله أجر مثله لا يجاوز به الدرهم؛ لأن هذا الاستئجار وقع فاسدا فكان عاملا له بإجارة فاسدة فيجب له أجر المثل، وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل وما تواضعوا عليه أن من كل عشرة دنانير كذا، فذلك حرام عليهم. (المحيط البرهاني : 7/ 485)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى عليه:’قَالَ فِي التتارخانية: وَفِي الدَّلَّالِ وَالسِّمْسَارِ يَجِبُ أَجْرُ الْمِثْلِ، وَمَا تَوَاضَعُوا عَلَيْهِ ... وَفِي الْحَاوِي: سُئِلَ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أُجْرَةِالسِّمْسَارِ؟ فَقَالَ: أَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ كَانَ فِي الْأَصْلِ فَاسِدًا؛ لِكَثْرَةِ التَّعَامُلِ، وَكَثِيرٌ مِنْ هَذَا غَيْرُ جَائِزٍ، فَجَوَّزُوهُ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَيْهِ...
( رد المحتار :63/6)
سعید محمد دین
دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی
/28جمادی الاولی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سعید بن محمد دین | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |