85747 | نماز کا بیان | مسبوق اور لاحق کے احکام |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگرمقتدی آخری قعدہ میں امام سے پہلے فارغ ہوجائے تو امام کے سلام پھیرنے تک اس کے لیے خاموش رہنا افضل ہے یا کوئی دعا پڑھنا افضل ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر مقتدی شروع سے امام کے ساتھ شریک ہے تو وہ تشہد، درود اور دعا مکمل کرنے کے بعدمزید درود شریف یا وہ دعائیں پڑھ سکتاہے جو قرآن وحدیث میں منقول ہیں اور اگر مقتدی کی کچھ رکعتیں نکل گئیں ہیں اور اس نے امام سے پہلے التحیات مکمل کرلی ہو تو پھر خاموش رہے یا اشہد ان لا الٰہ الا اللہ کو آہستہ آہستہ دہراتا رہے، لیکن درود اور دعائیں نہ پڑھے۔
البتہ پہلی صورت میں افضل یہ ہے کہ التحیات،درود اور دعا اس طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھے کہ امام کے سلام پھیرنے تک ختم کرلےاور دوسری صورت میں بھی افضل یہ ہے کہ التحیات ٹھہر ٹھہر کر پڑھے تاکہ اما م کے فارغ ہونے تک ختم کرے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ طاہر بن محمد الحنفی رحمہ اللہ تعالی:المقتدي إذا فرغ من التشهد في القعدة الاخيرة قبل إلامام واشتغل بالصلوات والدعوات، فلما فرغ الإمام وهوقد قرأالدعوات ،لا يكره.
(خلاصةالفتاوي:1/160(
وقال العلامۃ إبراہیم الحلبي رحمہ اللہ تعالی:إذا فرغ من التشهد قبل سلام الإمام يكرره من أوله، وقيل: يكرر كلمة الشهادة،وقيل: يسكت، وقيل: يأتي بالصلاة والدعاء. والصحيح أنه يترسل ليفرغ من التشهد عند سلام الإمام.( غنية المتملي،ص:478)
وقال أصحاب الفتاوى الهندية:ومنها: أن المسبوق ببعض الركعات يتابع الإمام في التشهد الأخير، وإذا أتم التشهد لا يشتغل بما بعده من الدعوات، ثم ماذا يفعل تكلموا فيه، وعن ابن شجاع أنه يكرر التشهد أي قوله: أشهد أن لا إله إلا الله وهو المختار، كذا في الغياثية. والصحيح أن المسبوق يترسل في التشهد حتى يفرغ عند سلام الإمام. كذا في الوجيز للكردري وفتاوى قاضي خان ،وهكذا في الخلاصة وفتح القدير.
(الفتاوى الهندية:1/ 91)
وقال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی: وأطلق المصنف التشهد والصلاة فشمل المسبوق ولا خلاف أنه في التشهد كغيره، وأما في الصلاة والدعاء فاختلفوا على أربعة أقوال: اختار ابن شجاع تكرار التشهد،وأبو بكر الرازي السكوت، وصحح قاضي خان في فتاواه أنه يترسل في التشهد حتى يفرغ منه عند سلام الإمام، وصحح صاحب المبسوط أنه يأتي بالصلاة والدعاء متابعة للإمام؛ لأن المصلي لا يشتغل بالدعاء في خلال الصلاة لما فيه من تأخير الأركان وهذا المعنى لا يوجد هنا؛ لأنه لا يمكنه أن يقوم قبل سلام الإمام، وينبغي الإفتاء بما في الفتاوى.(بحر الرائق /1: 575)
شمس اللہ
دارالافتاء جامعۃ الر شید،کراچی
4/ جمادی الاخری/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | شمس اللہ بن محمد گلاب | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |