03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کیا شرکیہ مقامات کی ویڈیوز بنانے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا؟
85746جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں : اسلم  ایک پولیس ملازم ہے اور اس کو چرچ ،مندروں اور گردواروں کی سیکورٹی کے پیش نظر  ویڈیوز بنانے کا حکم ملتا ہے۔ مذکورہ شخص ان عبادت گاہوں کی ویڈیوز بناتا ہے یہ بتانے کے لیے کہ مندر میں سیکورٹی تسلی بخش ہے۔ تو  کیا   بتوں کی شرکیہ رسومات کی تصویر بنانے والا  اور ویڈیوز بنانے والا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تصاویر اور ویڈیوزبنانے کا مقصدچونکہ صرف عبادت گاہوں کی سیکورٹی چیک کرناہے ، تاکہ سیکیورٹی کی صورتحال ٹھیک  ہونے کی تصدیق ہوسکے ، تو ضرورت کے پیش نظر اس کی گنجائش ہوسکتی ہے ، اگرچہ ناجائز تصاویر بھی اس میں شامل ہوتی ہیں۔ اس عمل کی وجہ سے کوئی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہو تا۔

حوالہ جات

قال العلامۃ  شیخ الإسلام المفتی التقی العثمانی  دامت برکاتھم العالیۃ :أما اتخاذ الصورة الشمسیة للضرورة و الحاجة کحاجتها فی جواز السفر، وفی التاشیرة، وفی البطاقات الشخصیة، أو فی مواضع یحتاج فیها الی معرفة هویة المرء فینبغی أن یکون مرخصاً فیه؛ فإن الفقهاء رحمهم الله تعالیٰ استثنوا مواضع الضرورة من الحرمة. قال الإمام محمد ؒ فی السیر الکبیر: و إن تحققت الحاجة له استعمال السلاح الذی فیه تمثال فلا بأس باستعماله، و أعقبه السرخسی ؒ فی شرحه 278:2 بقوله: لأن مواضع الضرورة مستثناة من الحرمة کما فی تناول المیتة. …و قد ثبت بالأحادیث الصحیحة أن رسول الله صلی الله علیه و سلم أجاز لعائشة رضی الله عنها اللعب بالبنات. و إن الفقهاء  رحمهم الله تعالیٰ أباحوا  للمرأة أن تکشف عن وجهها عند الشهادة.( تکملة فتح الملهم :4/164)

قال العلامۃ  شیخ الإسلام المفتی التقی العثمانی  دامت برکاتھم العالیۃ :وأما التلفزیون.....و منھم من یقول: إن  الصورالتی تظھرعلی شاشتہ لیست من الصور الممنوعہ.(فقہ البیوع:326/1)

قال الإمام أبوحنیفۃ رحمہ اللہ تعالی :لا يكفر مسلم بذنب ما لم يستحله  ،   عابدين ثابتين على الحق ومع الحق نتولاهم جميعا ،ولا نذكر أحدا من أصحاب رسول الله إلا بخير ،ولا نكفر مسلما بذنب من الذنوب وإن كانت كبيرة إذا لم يستحلها ولا نزيل عنه اسم الإيمان ونسميه مؤمنا حقيقة ،ويجوز أن يكون مؤمنا فاسقا غير كافر.( الفقه الأكبر،ص:43)

 قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی: (الایمان) ھو تصدیق محمد صلی اﷲ علیہ وسلم فی جمیع ما جاء بہ عن اﷲ تعالیٰ مما علم مجیئہ ضرورۃً. والکفر لغۃ: الستر.وشرعا: تکذیبہ صلی اﷲ علیہ وسلم فی شیء مما جاء بہ من الدین ضرورۃ.(الدر المختار:221/4)

 وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: قلت :وقد حقق فی المسایرۃ أنہ لا بد فی حقیقۃ الإیمان من عدم ما یدل علی الاستخفاف من قول أو فعل ویأتی بیانہ.(رد المحتار: 221/4)

وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:  قولہ:( قال فی البحر الخ) سبب ذلک ما ذکرہ قبلہ بقولہ: وفی جامع الفصولین: روی الطحاوی عن أصحابنا: لا یخرج الرجل من الإیمان إلا جحود ما أدخلہ فیہ ،ثم ما تیقن إنہ ردۃ یحکم بہا وما یشك أنہ ردۃ لا یحکم بھا، إذ الإسلام الثابت لا یزول بالشک مع أن الإسلام  یعلو وینبغي للعالم إذا رفع إلیہ ھذا أن لا یبادر بتکفیر أھل الإسلام مع أنہ یقضي بصحۃ إسلام المکرہ  .أقول: قدمت ھذا   لیصیر میزانًا فیما نقلتہ فی ھذا الفصل من المسائل فإنہ قد ذکر فی بعضھا: إنہ کفر، مع أنہ لا یکفر علی قیاس ھذہ المقدمہ، فلیتأمل اھـ ما فی جامع الفصولین. (رد المحتار:224/4)

 شمس اللہ 

دارالافتاء جامعۃ الر شید،کراچی 

4/  جمادی الثانی/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

شمس اللہ بن محمد گلاب

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب