86114 | شرکت کے مسائل | شرکت سے متعلق متفرق مسائل |
سوال
اکیڈمی کے لیےمزید ٹیچرز کی ضرورت ہوتی ہے ، انہیں تنخواہ پر رکھا جائے، تو شرکاء پر یہ تنخواہ کس اعتبار سے تقسیم ہوگی؟ تنقیح : سائل کی وضاحت:شرکاء کہتے ہیں کہ ٹیچرز کی تنخواہ کا بوجھ سب پر نہیں ہونا چاہیے ، شریعت میں یہ بوجھ کس پر ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اکیڈمی کےلیے رکھے جانےوالے ٹیچرزکی تنخواہیں، شرعاًاکیڈمی کے اخراجات میں شامل ہوں گی۔ شرعی نقطۂ نظر سے
اکیڈمی کے تمام اخراجات کا بوجھ سب شرکاء کے ذمہ اسی تناسب سے آئے گا جس تناسب سے ہر شریک کے لیے ضمانِ عمل یعنی کام کی ذمہ داری طے پائی ہے۔
حوالہ جات
قال العلامة الكاساني: وأما الوضيعة فلا تكون بينهما إلاعلى قدر الضمان ،حتى لو شرطا أن ما يتقبلانه ،فثلثاه على أحدهما بعينه، وثلثه على الآخر، والوضيعة بينهما نصفان، كانت الوضيعة باطلة ،والقبالة بينهما على ما شرطا على كل واحد منهما. (بدائع الصنائع:6/77)
وفي الفتاوى العالمكيرية : (وأما شركة الأعمال) فهي كالخياطين والصباغين، أو أحدهما خياط والآخر صباغ أو إسكاف يشتركان من غير مال على أن يتقبلا الأعمال فيكون الكسب بينهما فيجوز ذلك... وإن شرطا التفاضل في العمل والأجر بأن قالا على أحدهما الثلثان من العمل، وعلى الآخر الثلث والأجر، والوضيعة بينهما على قدر ذلك ،فهي شركة عنان. (الفتاوى العالمكيرية:2 / 328 )
عبداللہ اسلم
دارالافتا ء جامعۃ الرشید ، کراچی
24/جمادى الآخرہ، 1446
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ اسلم ولد محمد اسلم | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |