03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کوشر سرٹیفائیڈ گائے سے بنی کولاجن استعمال کرنے کاحکم
86466جائز و ناجائزامور کا بیانکھانے پینے کے مسائل

سوال

محترم میری والدہ کو پٹھوں کی بہت تکلیف ہے ،جس کی وجہ سے ڈاکٹر نے کولاجن سپلیمنٹ لینے کا کہا۔ ان کو مچھلی سے بنی ہوئی کولاجن استعمال کروائی مگر وہ موافق نہ آسکی۔ اب ڈاکٹر نے گائے سے بنی کولاجن استعمال کرانے کا کہا ہے۔ میں امریکہ میں بنی ہوئی ایک کولاجن استعمال کروانا چاہتی ہوں ،جس کے پیچے لفظ K لکھا ہوا ہے جس کا مطلب kosher ہے ،جو کہ کچھ علماء کے نزدیک حلال ہے۔ مہربانی فرما کر رہنمائی فرمائیں کہ یہ استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جزاک اللہ خیرا ۔آپ کی سہولت کے لیے پروڈکٹ کا لنک بھی ڈال دیا ہے۔ https://www.vitalproteins.com/products/collagen-peptides

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ  کوشر سرٹیفائیڈ کولاجن گائے کی ہڈیوں اور کھال سے حاصل کی جاتی  ہے،اور اس میں خنزیر کے اجزاء وغیرہ نہیں ہوتے  ،لہذا علاج وغیرہ ضرورت کے لیے اس کا استعمال کرنا  فی ذاتہ جائز ہے  ۔لیکن  یہ دیکھ لیا جائے  کہ خمر یا اجزائے ترکیبی میں کوئی مشکوک جزء شامل نہ ہو ،کیونکہ کوشر میں اس کا امکان رہتا ہے۔ نیزاگر کسی اسلامی ملک سے مذکورہ کولاجن بسہولت دستیاب ہوسکے ،تو اس کو استعمال کرنا چاہیے۔

حوالہ جات

قال في الهندية : وقال محمد  رحمه الله تعالى  ولا بأس بالتداوي بالعظم إذا كان ‌عظم ‌شاة أو بقرة أو بعير أو فرس أو غيره من الدواب إلا عظم الخنزير والآدمي فإنه يكره التداوي بهما فقد جوز التداوي بعظم ما سوى الخنزير والآدمي من الحيوانات مطلقا من غير فصل بينما إذا كان الحيوان ذكيا أو ميتا وبينما إذا كان العظم رطبا أو يابسا وما ذكر من الجواب يجري على إطلاقه إذا كان الحيوان ذكيا لأن عظمه طاهر رطبا كان أو يابسا يجوز الانتفاع به جميع أنواع الانتفاعات رطبا كان أو يابسا فيجوز التداوي به على كل حال وأما إذا كان الحيوان ميتا فإنما يجوز الانتفاع بعظمه إذا كان يابسا ولا يجوز الانتفاع إذا كان رطبا وأما عظم الكلب فيجوز التداوي به هكذا قال مشايخنا وقال الحسن بن زياد لا يجوز التداوي به كذا في الذخيرة.

( الفتاوى الهندية:354/5)

قال الشيخ تقي العثماني  حفظه الله:‌أما استعماله في الأكل فالصحيح المفتى به عند الحنفية أنه لا يجوز,ولكن هناك قول عند الحنفية والشافعية في جواز أكله (يعني الجلد المدبوغ )ويسوغ العمل به للتداوي بالكيبسولات المتخذة من الجيلاتن بشرط أن لا تكون متخذة من جلد الخنزير أو عظمه  .أما في غير التداوي فينبغي الاجتناب من أكله ,ما لم تثبت استحالتها.(فقه البيوع : 307/1)

محمد فیاض بن عطاءالرحمن

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۹ رجب المرجب ۱۴۴۶ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فیاض بن عطاءالرحمن

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب