03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اگر میری فلاں عورت سے شادی نہ کروائی تو میری بیوی کوطلاق کیا اس طرح کہنے سے طلاق ہوگی؟
86634طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سائل ایک لڑکی کو پسند کرتا تھا ، مگر والدین نے زبردستی دوسری لڑکی سے شادی کروادی، چند ماہ بعد سائل نے اپنی والدہ سے کہا " اگر آپ لوگوں نے میری فلانی لڑکی سے شادی نہیں کروائی تو میں نے اس کو(یعنی اپنی بیوی کو)طلاق دیا، طلاق ،طلاق،طلاق " نیز مذکورہ طلاق کے الفاظ ادا کرنے سے پہلے سائل کے والد نے فلانہ لڑکی کے گھر والوں سے رشتے کی بات کی تو انہوں نے رشتہ دینے سے انکار بھی کیا ہے ۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اس صورت میں سائل کی بیوی پر شرعاً طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ وضاحت فرمائیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ الفاظ کا تقاضہ یہ ہے کہ اگروالدین نے اس لڑکی سے آپ کا نکاح نہ کر وایا تو موجو دہ بیوی کو طلاق   ہو گی۔لہذا اگروالدین فوت ہوجائیں یالڑکی فوت ہوجائے یالڑکافوت ہوجائے تو اس صورت میں اس شرط پر عمل ممکن نہیں ہوگا اور اس وقت آپ کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی،اس سے پہلے طلاق واقع نہیں ہو گی۔

حوالہ جات

قال ابن عابدین رحمہ اللہ:بخلاف ما إذا كان شرط الحنث أمرا عدميا، مثل: إن لم أكلم زيدا أو إن لم أدخل فإنها لا تبطل بفوت المحل بل يتحقق به الحنث لليأس من شرط البر وهذا إذا لم يكن شرط البر مستحيلا، وإلا فهو مسألة الكوز، وقد علمت ما فيها من التفصيل، وليس منها قوله لأصعدن السماء، فإن اليمين فيها منعقدة ويحنث عقبها لأن صعود السماء أمر ممكن. (حاشية ابن عابدين  :3/ 349)

قال ابن الهمام رحمہ اللہ 🙁وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق) وهذا بالاتفاق لأن الملك قائم في الحال، والظاهر بقاؤه إلى وقت وجود الشرط .

(فتح القدير: 4/ 116)

قالالكاساني رحمہ اللہ:«ولو قال لامرأته ‌أنت ‌طالق وفلانة إن تزوجتها لم يقع الطلاق على امرأته حتى يتزوج بالأخرى لأنه علق طلاقها بالشرط وهو التزوج لإتيانه بكلمة الشرط نصا فيتعلق به.

)بدائع الصنائع : 3/ 34)

قالالكاساني رحمہ اللہ:«‌وإن ‌كانت ‌من ‌طلاق بائن أو ثلاث فإن كان ذلك في حال الصحة فمات أحدهما لم يرثه صاحبه سواء كان الطلاق برضاها أو بغير رضاها. (بدائع الصنائع: 3/ 218)

قالابن نجيم رحمہ اللہ:كل فعل حلف أنه يفعله في المستقبل، وأطلقه، ولم يقيده بوقت لم يحنث حتى يقع الإياس عن البر مثل ليضربن زيدا أو ليعطين فلانة أو ليطلقن زوجته وتحقق اليأس عن البر يكون بفوت أحدهما فلذا قال في غاية البيان، وأصل هذا أن الحالف في اليمين المطلقة لا يحنث ما دام الحالف والمحلوف عليه قائمين لتصور البر فإذا فات أحدهما فإنه يحنث. اهـ.(البحر الرائق: 4/ 338)

محمد اسماعیل  بن محمداقبال

دارالافتاء جا معۃ الرشید کراچی

20رجب 1446ھ     

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اسماعیل بن محمد اقبال

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب