03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سسرال والوں سے بیٹی کے نفقے پر اختلافات
86803نان نفقہ کے مسائلوالدین،اوراولاد کے نفقہ اور سکنی کے احکام

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مفتی صاحب ایک مسئلہ یہ پوچھنا تھا کہ میری شادی کے تقریبا سوا سال بعد ہماری طلاق ہو گئی تھی اور اللہ نے ایک بیٹی بھی دی- اس کے بعد بیٹی اپنی والدہ کے ساتھ نانا کے یہاں چلی گئی اور وہیں رہتی ہے- بچی کے ماہانہ اخراجات کے لیے پیسے میں دے دیتا ہوں- سوال یہ ہے کہ اگر وہ لوگ میرے دئیے ہوئے پیسوں کو بچی کے لیے بچا کر رکھ لیں اور اسکے اخراجات اپنے پاس سے پورا کرتے رہیں تو کیا یہ اُن کے لیے جائز ہے۔جبکہ میں اس بات کی صراحت کر چکا ہوں کہ یہ بچی کے ماہانہ اخراجات کے لیے پیسے ہیں۔اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ مجھے کبھی یہ بات سننے کو ملے کہ بچی کو تو ہم نے پالا ہے اور وہ پیسے تو اُسکے لیے بچا کر رکھ دئیے تھے۔ دوسری بات یہ کہ بچی کے لیے پیسے بچانے کی فکر میں خود بھی کرسکتا ہوں۔ اور اگر وہ پیسے جمع ہی کرتے رہیں تو کیا میں پیسے دینا بند کرسکتا ہو ؟ اور انکا یہ عمل کیسا ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب آپ نےاپنی بیٹی کےخرچے کے لیے پیسےدیدیےتوشرعاً آپ کاذمہ بری ہوگیا اس کے بعداگریہ لوگ آپ کی بیٹی پر اپنی طرف سےخرچ کرتے ہیں توبھی یہ آپ کے پیسوں سےوصول کرسکتے ہیں اوراگروہ آپ  کی دی ہوئی رقم اسی بچی کے لیے بچاکہ رکھتے ہیں تو یہ اس بچی کےلیےمحض بھلائی اورخیرخواہی ہے،لہذا آپ  ان کی اس اچھائی کی رعایت رکھتےہوئے صبروتحمل اورفراخدلی کا مظاہرہ کریں۔تاہم آپ نے پہلے جورقم دیا ہےاگر وہ  بعینہ موجود ہوتومزیدنفقہ آپ پرواجب نہیں۔

حوالہ جات

قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ:ومن دفع إلى رجل عشرة ينفقها على أهله فأنفق عليهم عشرة من عنده فالعشرة بالعشرة) لأن الوكيل بالإنفاق وكيل بالشراء وحكمه كذلك. (البحر الرائق: 7/ 186) البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (7/ 141):

الخامس في حكمها فمنه ثبوت ولاية التصرف الذي تناوله التوكيل ومنه أنه أمين فيما في يده كالمودع فيضمن بما يضمن به المودع ويبرأ به والقول قوله في دفع الضمان عن نفسه»

                قال العلامۃ المرغینانی رحمہ اللہ: ومن دفع إلى رجل عشرة دراهم ينفقها على أهله فأنفق عليهم عشرة من عنده فالعشرة بالعشرة؛ لأن ‌الوكيل ‌بالإنفاق وكيل بالشراء والحكم فيه ما ذكرناه وقد قررناه فهذا كذلك.

(الهداية :3/ 152)

قال العلامۃ الحسام الدین الحنفی رحمہ اللہ:وقد ذكر وجه الاستحسان بقوله: (لأن ‌الوكيل ‌بالإنفاق وكيل بالشراء وقيل القياس والاستحسان في قضاء الدين  وهو أن يدفع المديون إلى رجل ألف درهم وقال ادفعها إلى فلان قضاء عني فدفع الوكيل غير ذلك من مال نفسه قضاء عنه في القياس يكون متبرعا حتى إذا أراد المأمور أن يحبس الألف التي دفعت إليه لا يكون له ذلك وفي الاستحسان له ذلك ولا يكون متبرعا.

(النهاية في شرح الهداية : 17/ 59)

                    قال العلامۃ الزیلعی رحمہ اللہ :ومن دفع إلى رجل عشرة ينفقها على أهله فأنفق عليهم عشرة من عنده فالعشرة بالعشرة وهذا استحسان والقياس أن يكون متبرعا؛ لأنه خالف أمره فترد العشرة على الموكل وجه الاستحسان أن الوكيل بالإنفاق وكيل بالشراء؛ لأن الإنفاق لا يكون بدون الشراء فيكون التوكيل به وكيلا بالشراء والوكيل بالشراء يملك النقد من مال نفسه ثم يرجع به على الآمر وهذا؛ لأنه لا يستصحب دراهم الآمر في كل مكان وينفق له ما أمره به من غير قصد فيشتريه له ويحتاج إلى النقد من مال نفسه فلم يجعل متبرعا تحقيقا لغرض الآمر ونفيا للحرج عن المأمور   )تبيين  الحقائق: 4/ 285)

قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:(وكذا) تجب (لولده الكبير ‌العاجز ‌عن ‌الكسب) كأنثى مطلقا.

قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ :قولہ :(كأنثى مطلقا) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة وهل إذا نشزت عن طاعته تجب لها النفقة على أبيها محل تردد فتأمل. (رد المحتار : 3/ 614)

محمدادریس

دار الافتاءجامعۃ الرشید ،کراچی      

/13رجب المرجب1446ھ 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد ادریس بن غلام محمد

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب