87392 | طلاق کے احکام | خلع اور اس کے احکام |
سوال
ایک لڑکی نے عدالت سے خلع حاصل کی اور شوہر بھی کو رٹ میں آیا تھا ۔ ہمارے وکیل نے ہمیں ہدایت کی تھی کہ بسا اوقات خلع کے شرعی تقاضے پورے نہیں ہوتے اس لئے دار الاافتاء سےفتوی بھی لینا ہے اور اسکے شرعی تقاضوں کو بھی پورا کرنا ہے۔
لہذا شرعی طور سے نکا ح کو ختم کرنے کے لئے ہم نے یہ تدبیر اختیار کی کہ ایک شخص نے S.H.O بن کر بذریعہ فون لڑکے سے رابطہ کیا اور مندرجہ ذیل گفتگو کی کہ آپ نے ابھی تک عدالتی فیصلہ کو قبول نہیں کیا ہے ؟
اس لڑکے نے جواب میں کہاکہ میں نے اسی وقت عدالتی فیصلہ کو قبول کیا تھا اور اب بھی قبول ہے۔
مندرجہ بالا گفتگو کے تناظر میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا شرعی تقاضہ پورا ہو گیا ہے اور یہ لڑکی نکاح سے آزاد ہو گئی ہے ؟واضح رہے کہ یہ نکاح کورٹ میرج تھا اور لڑکی کی رخصتی بھی نہیں ہوئی تھی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
خلع مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے ، اسی طرح خلع معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔ لہذا خلع کے لیے شوہر کی رضامندی اور اجازت ضروری ہے ۔
صورت مذکورہ میں جب شوہر نے اس بات کا اعتراف کرلیا کہ میں نے عدالتی فیصلہ قبول کیا ہے تو شرعا عدالتی خلع نافذ ہےاور میاں ، بیوی کا نکاح ختم ہوکر ایک طلاق بائن پڑ چکی ہے، اگر نکاح کے بعد میاں بیوی تنہائی میں ایک دوسرے سے نہ ملے ہوں یا ملے ہوں مگر اس سرسری طور پر ، جس میں ہمبستری کا موقع نہ ہوا ہو تو لڑکی پر کوئی عدت بھی نہیں ، لہذاوہ کسی دوسری جگہ ،جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے اور اگر نکاح کے بعد تنہائی میں اس طرح ملاقات ہوئی ہو کہ ہمبستری کرنا چاہتے تو کرسکتے تھے تو پھر تین ماہواریاں عدت گزار نے کے بعد نکاح کر سکتی ہے۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع : (315/4)
وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.
«المبسوط» للسرخسي (6/ 173):
«(قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد.»
زاہد خان
دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
8 /ذی قعدہ/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | زاہد خان بن نظام الدین | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |