021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پرورش کے دوران بچیوں کو اپنے والد سے دور رکھنا اورملنے نہ دینا
73550میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

        میری شادی آج سے تقریبادس سال پہلے ہوئی تھی جس سے میرے دو بچے بھی پیدہوئے، لیکن شوہر کا حال یہ تھا کہ بچوں کی پیدائش سے پہلے ہی  سےوہ میرا نان ونفقہ مجھے نہیں  دیتا تھا ،یعنی جب میر انکاح  ہواتو اس کے کچھ عرصہ بعد اس نے کام کاج کرنا چھوڑدیا  اورنہ ہی کسی اوردوسرے ذریعے سے کماتاتھا جس کی بدولت گھر میں ہر وقت جھگڑا رہتاتھا  اورایک دو بارتو اس نے مجھ پر ہاتھ بھی اٹھا یاتھا اورگالم گلوچ تو اکثر کیا کرتا تھا، لیکن سسرال والے مجھے امید دلاتے تھے، لیکن وہ بیٹے کو اس بات پر تیارنہ کرپائے کہ وہ محنت کرکے اپنا  اوراپنے بچوں کا خرچہ برداشت کرے ،اوراس قسم کی لڑائی کئی بار ہوئی اورمختلف فیصلے بھی ہوئے ،لیکن شوہر اس درجے کی غفلت میں مبتلاہوکر زندگی گزاررہاتھا کہ نہ تو دین کاتھااور نہ ہی دنیا کا نظر آرہاتھا  اوراسی دروران میری پہلی بیٹی کی پیدائش  ہوئی جس کی وجہ سےمیری پریشانی مزید بڑھ گئی کہ بچی کی زندگی  کاکیا بنے گا جبکہ بچی کے والد کو ذرا بھی فکر نہیں کہ میں صاحبِ اولاد ہوچکا ہوں  اورمیری ذمہ داریاں بٕڑھ چکی ہیں، لہذ امیں نے اپنے شوہر کی صورتِ حال اوراس درجے کی غفلت والی زندگی جو مسلسل پریشانی کا سبب بنی ہوئی تھی کو سامنے رکھتے ہوئے اس نیت سے اپنی والدہ کے یہاں آگئی کہ شاید ان کی صحت پر کچھ اثرپڑے اوروہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں، اسی دوران امی کے ہاں رہتے ہوئے میری دوسری بچی کی پیدائش بھی ہوئی، جس کا سارا خرچہ بھائی نے برداشت کیا ،ان سب کے باوجود بھی شوہر کی طرف سے کسی قسم کا رد ِعمل ظاہر نہ ہونے پر میں نے طلاق لینے کا فیصلہ کرلیا جس پر شوہر نے خاندانی جرگے کے دوران طلاق دی  اوربچوں کے بارے میں کوئی نفقہ طے نہ کیا ،طلاق کے کاغذات لانے والے نمائندہ کے سامنے جب میں نے بچیوں سے ان کے والد کے نہ ملنے کی خواہش کا اظہارکیا  تو اس نے بھی  اس پر اتفاق کیا اورکہا کہ بچوں کے دادا ،دادی ملیں گے صرف تین سے چارماہ تک، اس کے بعد آپ بیشک منع کردیں، بچیوں کو والد سےنہ ملوانے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ طلاق سے پہلے بڑی بیٹی سے ان کے والد نے ملاقات کی تھی تواس نے میرے بارے  میں بچی کے ذہن میں غلط تاثرات پیداکئے تھے جس کا اظہار بچی آج تک کرتی آئی ہے ،اب میرے طلاق کو سات ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرچکاہے تو بچیوں کے والد نے بچیوں سے ملاقات کے لیے خاندانی دباؤ ہم پر ڈالنا شروع کردیاہے، جبکہ طلاق کے جرگے میں ایسی کوئی بات طےنہیں ہوئی تھی ،اب دونوں بچیاں میری پروش میں ہیں اورمیں اپنی والدہ کے ہاں رہتے ہوئےحلا ل طریقے سے محنت ومشقت کرکے اپنا اوراپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہوں اورالحمد للہ پہلی کی بنسبت بہتر زندگی بسرکررہی ہوں،جبکہ میری دونوں بچیاں حساس طبیعت کی مالک ہیں جس کی وجہ سے میں والد کی ملاقات کو نقصان دہ یعنی بچوں کے لیے ذہنی طورپر نقصان دہ سمجھتی ہوں ،یہ ساری صورتِ حال  سامنے رکھتے ہوئے میں اپنی بچیوں کو ان کے والد اوردادا ،دادی سے ملاقات  کی اجازت نہ دوں تو کیاشریعت میں ایساکرنا درست ہوگا ؟ رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

       صورتِ مسئولہ میںبچیوں کو والد سےدور رکھنا اورملنے نہ دیناشرعاً بچیوں اور ان کے والد دونوں کے ساتھ ظلم ہےاورقطعِ رحمی ہے،اورپاکستان میں اس ظلم کوروکنے کےلیےباقاعدہ ایک قانون بنام "گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 1890ء"بھی موجودہےجس کے تحت طلاق  کےبعدوالدکو بچوں سےملنے کےلیے کچھ وقت دیاجاتاہے،لہذا آپ کا بچیوں کو ان کے والد سےملنے سےروکناشرعاًوقانوناً  دونوں طرح غلط ہے ،آپ ان کو والدکی ملاقات سے نہیں روک سکتیں۔یہ بچیاں بالغ ہونے تک آپ کے پاس رہیں گی اوران کا نفقہ والد پر ہوگا، اگروہ نفقہ نہیں دیتا تو آپ عدالتی چارہ گوئی کرسکتی ہیں،اوربالغ ہونے کے بعد والد ان کو اپنی پرورش میں لے سکتاہے،آپ ان کو روک نہیں سکتیں ۔

حوالہ جات
وفی الھدایة:
(وإذا أرادت المطلقة أن تخرج بولدها من المصر فليس لها ذلك) لما فيه من الإضرار بالأب."(هداية، 2/436 ط: المكتبة العلمية)
وفی سنن أبى داود - (2 / 60)
1698 - حدثنا مسدد حدثنا سفيان عن الزهرى عن محمد بن جبير بن مطعم عن أبيه يبلغ به النبى -صلى الله عليه وسلم- قال « لا يدخل الجنة قاطع رحم ».
الفتاوى الهندية (1/ 543)
الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي.
{وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن باالمعروف} [البقرة: 233]
البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي - (4 / 218)
(قوله ولطفله الفقير) أي تجب النفقة والسكنى والكسوة لولده الصغير الفقير لقوله تعالى {وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن بالمعروف} [البقرة: 233] فهي عبارة في إيجاب نفقة المنكوحات إشارة إلى أن نفقة الأولاد على الأب.
الفتاوى الهندية - (1 / 561)
وبعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب.
وفی الدر المختار   :                                      
  وتجب النفقة بأنواعھا علی الحر لطفلہ ……الفقیر الحر الخ(۵: ۳۳۷، مطبوعہ: مکتبہ زکریا)
وفی الفتاوی العالمگیریة:
"ونفقة الإناث واجبة مطلقاً على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة".(1/563، الْفَصْلُ الرَّابِعُ فِي نَفَقَةِ الْأَوْلَاد، ط: رشیدیة)
وفی البدائع:
وأما بیان من لہ الحضانة فالحضانة تکون للنساء في وقت وتکون للرجال في وقت، والأصل فیہا النساء لأنہن أشفق وأرفق وأہدی إلی تربیة الصغار، ثم تصرف إلی الرجال لأنہم علی الحمایة والصیانة وإقامة
مصالح الصغار أقدر (بدائع الصنائع ۳: ۴۵۶، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)
أحق الناس بحضانة الصغیر حال قیام النکاح، أو بعد الفرقة الأم (فتاوی عالمگیری قدیم ۱: ۵۴۱،مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)،
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 566)
 (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 568)
(بلغت الجارية مبلغ النساء، إن بكرا ضمها الأب إلى نفسه) إلا إذا دخلت في السن واجتمع لها رأي فتسكن حيث أحبت حيث لا خوف عليها (وإن ثيبا لا) يضمها (إلا إذا لم تكن مأمونة على نفسها) فللأب والجد ولاية الضم لا لغيرهما كما في الابتداء بحر عن الظهيرية.

  سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

     27/11/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب