021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
انٹرنیٹ گیمز کے کریڈٹس ( ڈیجیٹل کوئنز/ ڈالرز) کی شرعی حیثیت
54919اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے فاسد معاملات کا بیان

سوال

انٹرنیٹ پر بہت سی گیمز ایسی ہیں کہ جس کے جیتنے والے کو کوئنز اور ڈالرز ملتے ہیں، کوئنز کا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ اس کے نغیر گیم نہیں کھیلی جا سکتی، اس کی مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے کہ زید اور عمرو جب آپس میں گیم کھیلیں گے تو متعین کرنا ہو گا کہ گیم میں جیتنے والے کو ہارنے والا کتنے کوئنز دے گا، اگر کسی کے پاس کوئنز نہ ہوں تو وہ گیم نہیں کھیل سکتا، کوئنز کی خارج میں کوئی حقیقت نہیں لیکن پھر بھی ان کی خریدو فروخت کی جا سکتی ہے، جس کی صورت یہ ہو گی کہ مثلاً زید عمرو سے کہے کہ تم میرے مقابلے میں 500 کوئنز والا گیم ہارجاؤ، جب وہ کوئنز میرے ہو جائیں گے تو میں تمہیں 50 روپے دے دوں گا۔ ڈالرز کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ سے شاپبگ کر سکتا ہے، مثلاً کوئنز ختم ہوں تو ڈالر سے خرید سکتا ہے، اسی طرح گیم کے دوران جو دو مد مقابل ہوتے ہیں تو وہ آپس میں میسج کے ذریعے باتیں کر سکتے ہیں، لیکن وہ باتیں محدود ہوتی ہیں، مثلاً Your Good, Thanks, Good luck, opse وغیرہ، تو ڈالر کے ذریعے انٹرنیٹ سے مختلف نئے جملے بھی خریدے جا سکتے ہیں، مثلاً اگر کھیلنے والے کے پاس یہ جملہ()نہ ہوتو خرید کر استعمال کر سکتا ہے، اس قسم کی گیموں میں ایک مشہور گیم 8 Pool ہے۔ ڈالر کی بھی خارج میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس سے خریدو فروخت نیٹ کے اندر ہی کی جا سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ گیم رشوت اور جوا تو نہیں؟کیا عمرو کے لیے اوپر ذکر کردہ طریقے سے 50 روپے لینا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب سے عوام کے اکثر ذاتی ، کاروباری، تعلیمی اور ملازمت کے کاموں کا تعلق کمپیوٹر سے جڑا ہے، لوگوں کی تفریح اور دل جوئی بھی انہی اشیاء سے متعلق ہو گئی ہے، اس لیے کبھی کبھار یہ گیمز کھیل لینا ممنوع نہیں جبکہ درج ذیل باتوں کا لحاظ رکھا جائے: • جماعت نماز اور دیگر حقوق اللہ کی پا بندی برقرار رہے۔ • حقوق العباد مثلاً والدین، بیوی بچوں، بہن بھائیوں اور دیگر قریبی رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو۔ • جوا یاحرام کمائی میں ملوث نہ ہو۔ • عشاء کی نماز کے بعد صرف ان گیمز میں وقت صرف نہ کیا جائے کیونکہ یہ مکروہ ہے۔ • گیم میں موجودعورتوں کی تصاویر دیکھنا گناہ ہے لہذا اس بھی اجتناب واجب ہے۔ سوال میں جس خاص صورت کا جواب مطلوب ہے اس کی وضاحت یہ ہےکہ "ایک شخص مثلاً زید کے پاس گیم کے کوئنز یا ڈالر ہیں جبکہ ایک دوسرے شخص عمرو کو ان کی ضرورت ہے، پھر دونوں مقابلہ کرتے ہیں اور زید عمرو سے جان بوجھ کرگیم ہار جاتا ہے ، جس کے نتیجے میں پہلے سے طے شدہ کوئنز یا ڈالرز عمرو کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جاتے ہیں اور عمرو پہلے سے طے شدہ کچھ حقیقی کرنسی (مثلاً 50 روپے) زید کو ادا کرتا ہے،تو سوال یہ ہے کہ کیا زید کے لیے یہ رقم لینا جائز ہے؟"۔ زید کے لیے یہ رقم لینا شرعاً بھی نا جائز ہے اور گیم بنانے(Develop) والی کمپنی کے قوانین (Terms and Conditions) کے مطابق بھی یہ رقم لینا ناجائز ہے۔ سائل نے جس "8 Pool" کا ذکر کیا ہے یہ ایک گیم ہے جو "Miniclip SA"نے بنائی ہے، کمپنی نے اپنے قوانین(Terms and Conditions) میں درج ذیل عبارت لکھی ہے : “Credits are limited licenses to digital goods and do not constitute personal property and are not legal tender or currency of any kind. All Credits purchased by you are non-refundable. No interest is paid or earned on any Credits balance. Credits are not redeemable for any sum of money or monetary value from Miniclip SA unless otherwise expressly agreed in writing by Miniclip SA.” "ترجمہ: کریڈٹس (گیم کے کوئنز یا ڈالرز) ڈیجیٹل سامان (فرضی اشیاء)تک محدود حقوق ہیں اور ذاتی جائیداد کے قائم مقام ہر گز نہیں اور کسی بھی قسم کے قانونی ٹینڈر یا کرنسی نہیں۔ آپ کی طرف سے خریدے گئے تمام کریڈٹس نا قابلِ واپسی ہیں۔ ان کریڈٹس پر نہ کوئی سود ادا کیا جائے گا اور نہ ہی وصول کیا جائے گا۔ منی کلپ ایس۔ اے ( گیم بنانے والی کمپنی کا نام) سے ان کریڈٹس کوکسی کرنسی یا زری اثاثے میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا الّا یہ کہ کمپنی واضح طور پر تحریری شکل میں اس پر راضی ہو۔" اس سے واضح ہوا کہ یہ کوئنز فرضی اشیاء اور فرضی کرنسی ہیں جو حقیقی اثاثے کی نمائندگی نہیں کرتے، نیز گیم بنانے والی کمپنی بھی اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ان کریڈٹس کو حقیقی کرنسی کے بدلے فروخت کیا جائے، لہذا صورتِ مذکورہ میں زید کے لیے 50 روپے وصول کرنا قانوناً ناجائز ہے۔ زید جان بوجھ کر جو گیم ہارتا ہے اور اس کے نتیجے میں عمرو کو کریڈٹس مل جاتے ہیں، دراصل ان کا مقصد یہ ہے کہ زید اپنے کریڈٹس عمرو کو دے دے، لیکن براہ راست وہ ایسا کر نہیں سکتا اس لیے انہوں نے یہ صورت نکالی کہ زید طے شدہ منصوبے کے مطابق گیم ہار جائے گا، گویا کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زید نے اپنے کریڈٹس عمرو کو دیے جس کے بدلے میں عمرو نے 50 روپے زید کو دیے، ان کریڈٹس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ حقِ استعمال کی نمائندگی کرتے ہیں، اس طرح ان کریڈٹس کو منتقل کر کے اس کا عوض لینا درج ذیل وجوہات کی بنا پرناجائز ہے: 1۔ کمپنی جو اس گیم اور اس کے حقِ استعمال کی مالک ہے، اس کے قوانین میں یہ بات درج ہے کہ ان کریڈٹس کی بیع نہیں ہو سکتی۔ 2۔ گیم ایک سافٹ دیئر ہے جو حکماً عین ہے، کمپنی جب پہلی مرتبہ صارفین کو کوئنز کی شکل میں حقِ استعمال فروخت کرتی ہے تو یہ حق ایسی چیز(یعنی گیم) کے تابع ہے جو حکماً عین ہے، اور ایسے حقوق کی بیع جائز ہوتی ہے جو عین کے تابع ہوں ، لہذا کمپنی کا یہ کوئنز فروخت کر نا جائز ہے، لیکن جب ایک صارف دوسرے کو یہ کوئنز فروخت کرتا ہے تو وہ صرف حقِ استعمال کو فروخت کر رہا ہے کیونکہ گیم پر نہ اس کی ملک ہے اور نہ ہی قبضہ، گویا کہ یہ حقِ مجرد ہے جس کی بیع اس صورت (جب عین کے تابع نہ ہو) میں ناجائز ہے۔ 3۔ اس انتقال کی جو صورت اختیار کی گئی یعنی ایک شخص جان بوجھ کر گیم ہارے گا اور اس کے عوض میں اسے رقم ملے گی تو یہ قمار کے مشابہ ہے، کیونکہ قمار میں دو لوگ گیم کھیلتے ہیں اور ہارے والا، جیتنے والے کو رقم دیتا ہے، جبکہ مذکورہ صورت میں جیتنے والا ہارنے والے کو رقم کی ادائیگی کرتا ہے، لہذا اس وجہ سے بھی یہ ناجائز ہے
حوالہ جات
فی صحيح البخاري (باب ما يكره من السمر بعد العشاء ): قال حدثنا أبو المنهال قال انطلقت مع أبي إلى أبي برزة الأسلمي فقال له أبي حدثنا كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي المكتوبة قال كان يصلي الهجير وهي التي تدعونها الأولى حين تدحض الشمس ويصلي العصر ثم يرجع أحدنا إلى أهله في أقصى المدينة والشمس حية ونسيت ما قال في المغرب قال وكان يستحب أن يؤخر العشاء قال وكان يكره النوم قبلها والحديث بعدها وكان ينفتل من صلاة الغداة حين يعرف أحدنا جليسه ويقرأ من الستين إلى المائة۔" و فی رد المحتار علی الدرالمختار (ج7، ص۳۱، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ): " مطلب: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة قوله: (لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة على الملك) قال في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها.أقول: وكذا لا تضمن بالاتلاف.قال في شرح الزيادات للسرخسي: وإتلاف مجرد الحق لا يوجب الضمان، لان الاعتياض عن مجرد الحق باطل، إلا إذا فوت حقا مؤكدا۔"فقط
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمران مجید صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب