بھائی یہ کہتےہیں کہ ہماری چھ چھ ایکڑ بنتی ہے اس طرح ہماری بھی چھ بنی ،کیا وہ زمین جو باپ نے بیٹوں کو گفٹ کی وراثت اس کے علاوہ تقسیم ہوگی؟
o
عام حالات میں اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنا مستحب ہے ،یعنی سب کو چاہے لڑکا ہو یا لڑکی، برابر حصہ دیاجائے،کسی کو نقصان پہنچانے کا قصد ہوتوکمی بیشی کرنا گناہ ہے،تاہم اگر آپ کے دادا نے بارہ ایکڑزمین صرف بیٹوں میں تقسیم کرکے ان کےقبضے میں دےدی تھی تو اب وہ میراث میں تقسیم نہیں ہوگی ،صرف بقیہ زمین اور اس کے علاوہ جوکچھ انتقال کے وقت ان کی ملکیت میں تھا تقسیم ہوگا،البتہ اگرتقسیم کرکے بیٹوں کے حوالے نہیں کی تھی،تو پھر وہ زمین بھی بقیہ ترکہ میں شامل ہوکر ورثہ میں تقسیم ہوگی۔
حوالہ جات
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق "(ج 20 / ص 110):
"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله لواحد جاز قضاء وهو آثم كذا في المحيط".
"البزازیہ علی ھامش الہندیۃ"(۶/237):
"الافضل فی ھبۃ الابن والبنت التثلیث کالمیراث وعند الثانی التنصیف وھوالمختار،ولووھب جمیع مالہ من ابنہ جاز ،وھو آثم ،نص علیہ محمد ،ولو خص بعض اولادہ لزیادۃ رشدہ لاباس بہ ،وان کانا سواءلایفعلہ".