بعدازتحیہ مسنونہ عرض ہےکہ ہمارے والدمحترم مرحوم حاجی میراحمدنے دوشادیاں کی تھیں،پہلی بیوی سے چاربیٹے 1۔ حاجی خیرمحمد2۔ فضل محمد 3۔ نیازمحمد 4۔ محمدنوراوردوسری بیوی سے ایک بیٹادوست محمد تھا،میرے والدحاجی میراحمد نے ہمیں کئی ہوٹل بناکردئے ،جوکہ یکے بعددیگرے فروخت ہوتے رہے ،اوربالآخر ایک ہوٹل کیفے حبیب کے نام سے جوکہ واٹرپمپ چورنگی کراچی بلاک نمبر13میں واقع ہے ،بناکردیا۔جس کووہ خوداپنی زندگی کی آخری لمحات تک چلاتے رہے ،اسی دوران حاجی میراحمد مرحوم نے دودکانیں اورایک مکان اسی ہوٹل کے آس پاس خریدا،ان کی وفات کے بعدحاجی خیرمحمد انتقال کرگیاتومیں نے ان کے بیٹوں حافظ ریاض احمد ،بشیراحمد ،نذیراحمد اورقدرت اللہ کواس کاروبارمیں حصہ داربنایاجوکہ حاجی خیرمحمد کےقائم مقام تھے ،نیازمحمد مرحوم اپنے والدیعنی حاجی میراحمد مرحوم کی زندگی میں علیحدہ ہوگئے تھے ،اوراپنی الگ زندگی گزارنے لگے تھے ،حاجی میراحمد مرحوم کی وفات کے بعد محمد نور بھی اپناحصہ لے کرعلیحدہ ہوگئے ،جوکہ والدصاحب کی میراث میں سے جوحصہ بنتاتھا،وہ ساتھ لے گئے تھے ۔
اب کاروبارمیں (یعنی فضل محمد) سوتیلے بھائی دوست محمد اورمیرے مرحوم بھائی حاجی خیرمحمد کے چاربیٹے چلارہے ہیں ،چونکہ ہم تین بھائی اکھٹے رہ گئے تھے ،میں (فضل محمد )دوست محمد اورحاجی خیرمحمد مرحوم جوکہ اب اس کے بیٹے ہیں،ہمارایہ کاروبار ہمارے والدمرحوم نے ہمیں بناکردیاہے ،اس پرمیرے پاس کئی گواہ اورشواہدموجودہیں ،اب پوچھنایہ ہے کہ ازروئے شریعت کیادوست محمدجوکہ میراسوتیلابھائی ہے ،اس جائیدادمیں برابرکاحق دارہے ،کہ نہیں ہے ؟اوریادرہے کہ یہ جائیدااداس سے پہلے ہم تین بھائیوں میں تین حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے ،ایک حصہ میرایعنی فضل محمد دوسراحصہ حاجی خیرمحمد اورتیسرادوست محمد کاتھا،کچھ لوگ دوست محمد کے اس حصہ سے منکرہیں ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوتیلابھائی ( دوست محمد) بھی والدکی جائیداد میں برابرکاحق دارہے کیونکہ باپ کی متروکہ جائیدادمیں اس کی تمام اولاد( ایک بیوی سے ہو یاکئی بیویوں سے) حصہ کی مستحق ہوتی ہے،اس لئے کہ باپ کی طرف نسبت کرتے ہوئےسب ایک باپ کی اولا دہیں۔