قبرکے اوپرعرق گلاب چھڑکنادرست ہے یانہیں ؟احسن الفتاوی ج 10 صفحہ 428 میں ہے قبرمیں خوشبوچھڑکنامستحب ہے ،جبکہ بعض علماء اسے ناجائزکہتے ہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
قبرکے اندرمردے کورکھ کر خوشبوچھڑکنامستحب ہے ،احسن الفتاوی میں جولکھاہے،اس کاصورت سوال سے کوئی تعلق نہیں ،لہذاقبرکے اوپرخوشبووغیرہ چھڑکنے کے متعلق ان علماء کی رائے درست ہے ،کیونکہ مردے کوقبرمیں دفناکراوپرسے پھول ،سبزپتی ،گلاب کے پھول رکھنایاعرق گلاب ڈالنا،نہ سنت ہے نہ مستحب ،بلکہ ایک بے فائدہ چیزہے اوراگراسے باعث ثواب بھی سمجھاجائے توبدعت وحرام ہے ،شریعت میں اس کی کوئی اصل اورثبوت نہیں ہے ،اس سے احترازکرنالازم ہے ،البتہ قبرکے اوپرپانی ڈالاجا سکتا ہے ،تاکہ مٹی جم جائے ۔
حوالہ جات
"شرح مسلم "1/141 :
لمافی شرح مسلم قال النووی :ففیہ انہ رضی اللہ عنہ تبرک بفعلہ مثل فعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم وقدانکرالخطابی مایفعلہ الناس علی القبورمن الاخواص ونحوہامتعلقین بہذالحدیث وقال لااصل لہ ولاوجہ لہ ۔
"فتح المعین"1/346:
ویوضع الحنوط فی القبرلانہ علیہ الصلاۃ والسلام فعل ذالک بابنہ ابراہیم۔ حموی عن الروضہ۔
"حاشیہ الطحطاوی" 1/367 :
قال العلامہ طحطاوی رحمہ اللہ تعالی (قولہ ویجعل الحنوط استحباباوکذایوضع فی القبرلانہ علیہ الصلاۃ والسلم فعل ذالک بابنہ ابراہیم ۔