021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دعاء کی وجہ سے تقدیربدل جاتی ہے ۔
54327ایمان وعقائدتقدیر کا یبان

سوال

صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حدیث بیان کی ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سچے ہیں ،سچے کئے ہوئے ہیں ،بیشک تم میں سے ہرایک آدمی کانطفہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رہتاہے ،پھرچالیس دن میں لہوکی شکل ہوجاتی ہے ،پھرچالیس دن میں گوشت کی بوٹی بن جاتی ہے ،پھراللہ تعالی اس کی طرف فرشتے کوبھیجتاہے وہ اس میں روح پھونکتاہے ،اورچارباتوں کااس کوحکم ہوتاہے ،کہ اس کی روزی لکھتاہے ،(یعنی محتاج ہوگایامالدار)اوراس کی عمر لکھتاہے کہ (کتناجئیے گا)اوراس کاعمل لکھتاہے کہ (کیاکیاکرے گا)اوریہ لکھتاہے کہ نیک بخت (بہشتی )ہوگایابدبخت (دوزخی )ہوگا۔سومیں قسم کھاتاہوں اس کی جس کے سواکوئی معبودنہیں کہ بے شک تم لوگوں میں کوئی بہشتیوں کے کام کرتاہے ،یہاں تک کہ اس میں اوربہشت میں ہاتھ بھرکافاصلہ رہ جاتاہے ،پھرتقدیر کالکھااس پرغالب آجاتاہے ،سووہ دوزخیوں کے کام کرنے لگتاہے پھردوزخ میں ڈال دیاجاتاہے اورمقررکوئی آدمی دوزخیوں کے کام کیاکرتاہے یہاں تک کہ اس میں اوردوزخ میں ہاتھ بھرکافاصلہ رہ جاتاہے پھرتقدیرکالکھااس پرغالب آجاتاہے اوروہ بہشتیوں کے کام کرنے لگتاہے اوربہشت میں چلاجاتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(صحیح مسلم کتاب تقدیر کے مسائل حدیث نمبر 6723 ) مفتی صاحب میں نے اکثرعلماء کرام سے سناہے کہ دعاء سے تقدیربدل جاتی ہے ،آپ سے سوال یہ ہے کہ: سوال :دعاء ان چارباتوں کوبدل سکتی ہے جوحدیث بالامیں مذکورہیں ،یعنی ۱۔ محتاجی کومالداری ۲۔ کم عمری کوزیادہ عمر میں ۔۳۔ بدعمل کونیک عمل میں اورچوتھاجواہم چیزہے یعنی دوزخی سے بہشتی ہوجاتاہے یانہیں ؟ مفتی صاحب مجھے امیدہے کہ آپ آسان الفاظ میں جواب دے کرہماری مشکل حل فرمائیں گے کیوں کہ میں عالم دین نہیں ہوں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تقدیرکی وجہ سے مذکورہ چیزیں بھی بدل جاتی ہیں ،لیکن حدیث "تقدیرکوصرف دعاء ہی پھیرسکتی ہے "اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے بعض لوگوں کی تقدیرمیں ہی یہ بات لکھ دی ہے کہ اگروہ دعاء کریں گے توایساہوگااوراگردعاء نہ کریں گے توایساہوگا،حالانکہ وہ جوکچھ کرے گاوہ بات بھی اللہ کے علم میں موجودہے ،مطلب یہ ہے کہ دعاء کی وجہ سے ان چیزوں کابدلنایہ بھی تقدیرمیں لکھاہے ،لیکن تقدیرہم سے مخفی ہے ،ہمیں اس کاعلم نہیں ہوتا،اوراسی تقدیرکے مطابق انسان پرپیش آنے والے احوال میں ظاہری طورپر دعاء اثراندازہوگی ۔
حوالہ جات
"سنن الترمذي" 3 / 303: باب ما جاء لايرد القدر إلا الدعاء 2225 – حدثنا محمد بن حميد الرازي وسعيد بن يعقوب . قالا أخبرنا يحيى بن الضريس عن أبى مودود عن سليمان التيمى عن أبى عثمان النهدي عن سلمان قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : (لايرد القضاء إلا الدعاء ، ولا يزيد في العمر إلا البر) . وفي الباب عن أبى أسيد هذا حديث حسن غريب لا نعرفه إلا من حديث يحيى بن الضريس . وأبو مودود اثنان أحدهما يقال له فضة ، والآخر عبد العزيز بن أبى سليمان ، أحدهما بصرى والآخر مدينى وكانا في عصر واحد . وأبو مردود الذى روى هذا الحديث اسمه فضة بصرى۔ " التيسير بشرح الجامع الصغير ـ للمناوى" 1 / 570: ( ولا يرد القضاء إلا الدعاء ) بمعنى أنه يهوّنه حتى يصير القضاء النازل كأنه ما نزل۔ " التيسير بشرح الجامع الصغير ـ للمناوى" 2 / 974: لا يرد القضاء ) المقدر ( الا الدعاء ) أراد الامر المقدر لولا دعاؤه او أراد برده تسهيله حتى يصير كأنه رد۔ "المعتصر من المختصر من مشكل الآثار " 2 / 180: روي مرفوعا لا يرد القضاء إلا الدعاء ولا يزيد في العمر إلا البر ومن سره النسأ في أجله ويوسع عليه في رزقه فليصل رحمه مع ما روى أن الله عز وجل إذا أراد أن يخلق نسمة أمر الملك بأربع كلمات رزقها وعملها وأجلها وشقى أو سعيد فلا يزاد على ذلك ولا ينقص منه لا تضاد فيما ذكرنا إذ يحتمل أن الله تعالى إذا أراد أن يخلق النسمة جعل أجلها إن برت كذا وإن لم تبر كذا وإن كان منها الدعاء رد عنها كذا وإن لم يكن منها الدعاء نزل بها كذا وإن عملت كذا حرمت كذا وإن لم تعمله رزقت كذا ويكون ذلك مما قد ثبت في الصحيفة التي لا يزاد على ما فيها ولا ينقص منه ۔ "تحفة الأحوذي للمبار كفوري" 6 / 289: ( باب ما جاء لا يرد القدر إلا الدعاء ) قوله [ 2139 ] ( لا يرد القضاء إلا الدعاء ) القضاء هو الأمر المقدر وتأويل الحديث أنه إن أراد بالقضاء ما يخافه العبد من نزول المكروه به ويتوقاه فإذا وفق للدعاء دفعه الله عنه فتسميته قضاء مجاز على حسب ما يعتقده المتوقى عنه يوضحه قول صلى الله عليه و سلم في الرقى هو من قدر الله ۔ وقد أمر بالتداوي والدعاء مع أن المقدور كائن لخفائه على الناس وجودا وعدما ولما بلغ عمر الشام وقيل له إن بها طاعونا رجع فقال أبو عبيدة أتفر من القضاء يا أمير المؤمنين فقال لو غيرك قالها يا أبا عبيدة نعم نفر من قضاء الله إلى قضاء الله أو أراد برد القضاء إن كان المراد حقيقته تهوينه وتيسير الأمر حتى كأنه لم ينزل يؤيده ما أخرجه الترمذي من حديث بن عمر أن الدعاء ينفع مما نزل ومما لم ينزل وقيل الدعاء كالترس والبلاء كالسهم والقضاء أمر مبهم مقدر في الأزل واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب