021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ملازم کو حاصل ہونے والی چھٹیوں کا حکم
54364 اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

ہمارے ادارے میں ملازمین کے ساتھ بوقت تقرری10حادثاتی واتفاقی(Casual) اور21سالانہ (Annual)چھٹیوں کا معاہدہ ہوتا ہے۔سالانہ چھٹیاں تو عمومی اورغیرمشروط ہوتی ہیں ،البتہ حادثاتی واتفاقی چھٹیوں(Casual Leave) کی صرف کسی ہنگامی صورتحال یا ضروری کام پیش آنے کی صورت میں اجازت ہوتی ہے،لیکن ملازمین(Casual) چھٹیوں کو اپنا لازمی حق سمجھتے ہیں اور ہنگامی صوتحال،مرض اور ضروری کام نہ ہونے کی صورت میں بھی چھٹی کرکے اسے(Casual) چھٹیوں میں شمار کرتے ہیں۔تقریبا ہر ملازم کی یہ کوشش ہوتی ہےکہ وہ10 چھٹیوں کا ہدف کسی بھی طرح پورا کرے۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ: 1) ملازمین کا یوں 10حادثاتی و اتفاقی چھٹیوں کا ہدف پورا کرنا کیسا ہے؟ 2) حادثاتی اور سالانہ چھٹیاں دینا ادارے کی طرف سے استحسان ہے یا یہ ملازمین کا حق ہے؟ 3) کیا ادارہ ملازم کی تقرری کے بعد اسے آگاہ کر کے ان 10یا20 چھٹیوں میں کمی بیشی کر سکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1) ملازمین کو ملنے والی سہولیات،مراعات اور چھٹیوں کا مدار ملازم اور مالک کے درمیان بوقت تقرری ہونے والے معاہدے پر ہوتا ہے۔اب چونکہ معاہدہ کے مطابق کمپنی کی طرف سے حادثاتی واتفاقی چھٹیوں کی اجازت صرف ہنگامی صورتحال،حادثات،مرض اور ضروری کام کی صورت میں ہے،لہذا ایسےہنگامی حالات کے نہ ہوتے ہوئےبھی ملازمین کا حادثاتی واتفاقی چھٹیوں کے نام پر چھٹی کرنا جائز نہیں اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ملازم نے ہنگامی حالات کے بغیر چھٹی کی ہےتو کمپنی کو حق ہے کہ وہ بلاوجہ چھٹی سے متعلق معاہدے میں ذکرکردہ ضوابط کے مطابق اس سے معاملہ کرےاور اگر بلاوجہ چھٹی سے متعلق معاہدے میں کوئی وضاحت نہ ہو،توکمپنی ملازم کی ایک دن کی تنخواہ کاٹ سکتی ہےکیونکہ بلاوجہ چھٹی سے متعلق یہی قانون اور عرف ہے۔ 2) شریعت نے ملازمین کے ساتھ بہت نرمی والا معاملہ کرنے کا حکم دیا ہےاور ان کے حقوق ادا کرنے کی بہت تاکید کی ہے۔ملازمین کو ملنے والی سہولیات،مراعات اورچھٹیوں سے متعلق ملکی قوانین موجود ہیں جن کی پابندی ہر کمپنی کے لئے لازم ہےاور کمپنی کی طرف سے خلاف ورزی کی صورت میں ملازمین کوکمپنی کے خلاف قانونی کاروائی کا بھی حق حاصل ہوتا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ یہ ملازمین کا حق ہے۔نیزادارے اور ملازم کے درمیان معاہدےمیں جتنی چھٹیاں طے ہو جائیں وہ جن شرائط کے ساتھ طے ہوں،ان شرائط کی پابندی کی صورت میں وہ بھی ملازم کا حق ہے۔البتہ اگر کوئی کمپنی اپنے ملازمین کوملکی قوانین میں ذکرکردہ تعداد یا معاہدہ میں طے شدہ تعدادسے زیادہ چھٹیاں دیتی ہے تویہ کمپنی کی طرف سے استحسان ہو گا۔ 3) جتنی چھٹیاں قانونا ملازمین کا حق ہے،یامعاہدےمیں طے شدہ ہیں،ان میں ملازم کی مرضی کے بغیرکمی جائز نہیں۔البتہ اگر ملازم چھٹیاں کم کرنےپر راضی ہو تو پھر کمی کی جاسکتی ہے، کیونکہ صاحب حق اپنے حق سے خود دستبردار ہو سکتاہے۔
حوالہ جات
قال في الشاميه: "وفي القنية من باب الإمامة إمام يترك الإمامة لزيارة أقربائه في الرساتيق أسبوعا أو نحوه أو لمصيبة أو لاستراحة لا بأس به ومثله عفو في العادة والشرع ." (ج:4,ص:419, دار الفكر-بيروت) وفي البحر الرائق: "قال الطرسوسي فاستنبطنا منه جواب مسألة واقعة وهي أن المدرس أو الفقيه أو المعيد أو الإمام أو من كان مباشرا شيئا من وظائف المدارس إذا مرض أو حج وحصل له ما يسمونه الناس عذرا شرعيا على اصطلاحهم المتعارف بين الفقهاء أنه لا يحرم مرسومه المعين بل يصرف إليه ولا تكتب عليه غيبة ومقتضى ما ذكره الخصاف أنه لا يستحق شيئا من المعلوم مدة ذلك العذر." (ج:5,ص:248, دار الكتاب الإسلامي) وفي الأشباه والنظائر: "ومنها : البطالة في المدارس كأيام الأعياد ويوم عاشوراء وشهر رمضان في درس الفقه : لم أرها صريحة في كلامهم والمسألة على وجهين : فإن كانت مشروطة لم يسقط من المعلوم شيء وإلا : فينبغي أن يلحق ببطالة القاضي. وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب من بيت المال في يوم بطالته فقال في المحيط : إنه يأخذ في يوم البطالة لأنه يستریح لليوم الثاني وقيل لا يأخذ انتهى وفي المنية القاضي يستحق الكفاية من بيت المال في يوم البطالة في الأصح واختاره في منظومة ابن وهبان وقال : إنه الأظهر فينبغي أن يكون كذلك في المدارس لأن يوم البطالة للاستراحة وفي الحقيقة يكون للمطالعة والتحرير" (ج:1,ص:118, المكتبة الشاملة) وفي فتح القدير: "( فله أن يبطله ) أي فللموكل الذي هو صاحب الحق أن يبطل حقه." (ج:18,ص:261, المكتبة الشاملة)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب