کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ
ہمارے صوبہ خیبرپختونخوا میں جو مقامی ،غیرسرکاری رؤیتِ ہلال کمیٹیاں ہیں مثلاً : بنوں ،لکی مروت اورمسجد قاسم علی خان پشاوراورجو سرکاری وفاقی رؤیت ہلال کمیٹی ہے ،جسے حکومت نے مقرر کیاہے،ان کمیٹیوں میں کونسی کمیٹی کے فیصلے پرصوم وعید کا فیصلہ ضروری ہے، زیدکہتاہے کہ چونکہ مرکزی کمیٹی حکومت کی تجویز کردہ ہے لہذا اس کےسامنےشہادت دینا شہادت عند القاضی ہےجوشرعاً معتبرہے، جبکہ مقامی سول کمیٹیوں کے پاس شہادت دینا شہادت عند القاضی نہیں ہے اورعمر کہتاہے کہ مقامی کمیٹی کا فیصلہ معتبرہے، کیونکہ مرکزی کمیٹی ایک تو بااختیارنہیں دوسرا وہ کمیٹی ہمارے خیبر پختون خواہ والوں کی شہادت کو معتبر نہیں مانتی ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
پاکستان کی مرکزی حکومت نے (جس کو ولایتِ عامہ حاصل ہے)تمام مسالک کے مشورے سے جب باقاعدہ رؤیتِ ہلال کمیٹی تشکیل دی ہے، تو شرعاً ہمارے لیے اُسی کمیٹی کا فیصلہ ہی مانناواجب ہے ،کیونکہ اس کو ولایتِ عامہ اورولایتِ قضاء حاصل ہوگئی ہے۔ لہذا اس کے مقابلہ میں مقامی اورغیر سرکاری کمیٹیوں کا فیصلہ درست اورواجب العمل نہیں۔
فقیہِ ملت مفکّر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اﷲ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
’’حکومتِ مرکزی پاکستان کی ولایت عامہ ہے،لہذا اگر مرکزی حکومت نے کسی معتبر ہلال کمیٹی کے علماء سے فیصلہ کروا کر نشر کیا، تو یہ فیصلہ سارے پاکستان کے لیے موجبِِ عمل ہوگا‘‘۔ (فتاوی مفتی محمود۳/۴۳۷)
مقامی کمیٹیوں کو معیار بنانے میں نہ صرف یہ کہ مرکزی حکومت کی ولایتِ عامہ کو چیلنج کرنا ہے، بلکہ عوام کے درمیان افتراق وانتشار کو بھی ہوا دینا ہے اور شرعاً یہ دونوں چیزیں قابلِ مذمت ہیں، علامہ عینی رحمہ اﷲتعالیٰ شرح بخاری سے نقل فرماتے ہیں:
’’اجمع العلماء علی وجوب طاعۃ الإمام في غیر معصیۃ‘‘ (عمدہ القاري:۱۴/۲۲۱)
علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غیر معصیت میں سلطان کی اطاعت واجب ہے۔
یہ بات حقائق کے خلاف ہے کہ مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی بااختیارنہیں اوراس بات کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں کہ خیبرپختونخواہ والوں کی شہادت مرکزی کمیٹی معتبرنہیں مانتی ،ہاں مشتبہ شہادتوں کو وہ شرعی اورمشاہداتی اصولوں پرضرورپرکھتی ہے اورپورا نہ اترنے کی صورت میں اس کو رد کرتی ہے ،ایسا کرنا اس کی ذمہ داری بھی ہے اوراس کوایسا کرنا بھی چاہیے ۔
بالفر ض اگروہ شہادت کسی وجہ سے قبول نہ کرےتو شرعاً توحکم واضح ہے کہ خود دیکھنے والا روزہ رکھے، اورخاموش رہے،اس کی تو اجازت نہیں کہ وہ غیر قاضی کے پاس شہادت لیکر جائے اوروہ غیر بھی بغیر تولیت کے شہادتوں کوسنے اورپھر بغیر ولایت کے فیصلہ بھی صادر کرے اورامت میں افتراق پیداکرے۔اورپھر یہ دعوی کرے اس حکم کو ماننا سب پر واجب بھی ہے ۔
حوالہ جات
وفی الهداية مع شرحہ البناية 4/ 24):
ومن رأى هلال رمضان وحده صام وإن لم يقبل الإمام شهادته لقوله - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -: «صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته» وقد رأى ظاهرا.
فتح القدير للكمال ابن الهمام (2/ 321)
(قوله وقد رأى ظاهرا) فصار شاهدا للشهر، وقد قال الله تعالى {فمن شهد منكم الشهر فليصمه} [البقرة: 185] ولا فرق بين كون هذا الرجل من عرض الناس أو كان الإمام فلا ينبغي للإمام إذا رآه وحده أن يأمر الناس بالصوم، وكذا الفطر بل حكمه حكم غيره.