021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مرداساتذہ کامخلوط تعلیمی نظام میں پڑھانا
55763جائز و ناجائزامور کا بیانپردے کے احکام

سوال

: محترم جناب مفتی صاحب!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ گزارش ہے کہ بندہ کوموجودہ تعلیمی نظام کے حوالے سے چند مسائل درپیش ہیں ،آپ ان کاجواب قرآن وحدیث کی روشنی میں دستخط ومہر کے ساتھ تحریر فرمائیں ۔ ۱۔ موجودوہ دورمیں رائج تعلیمی نظام میں بی اے ،ایم اے ،یاایم فل ،کی سطح پرمخلوط تعلیم پڑھاناکیساہے ؟بعض سرکاری اسکولوں میں پرائمری یامڈل سطح تک کے اسکول کمبائنڈ ہیں ،جہاں آدمی اپنی جاپ کے سلسلہ میں زیادہ مجبورہوتاہے تووہاں مخلوط ماحول میں پڑھاناپڑتاہے ،اوربعض اسکولوں میں مخلوط اسٹاف بھی موجودہے ،اس صورت میں پڑھانااوراس سے حاصل شدہ ٹیوشن فیس یاتنخواہ لیناشرعی طورپرکیساہے ؟ ۲۔ پانچویں ،آٹھویں ،میٹرک ،ایف اے ،بی اے ،ایم اے،کی لڑکیوں کومرداستاذ کاایک پوری لڑکیوں کی کلاس کوپڑھانایاچندلڑکیوں کومرداستاد کاپڑھانایابعض اوقات صرف ایک ہی لڑکی کو مرداستاذکااکیلے میں پڑھاناکیساہے ؟اوراس سے حاصل شدہ رقم ،ٹیوشن یاتنخواہ کی شرعی لحاظ سے کیاحیثیت ہوگی ؟ ۳۔ ہمارے ہاں ایک عالم دین ایک پرائیویٹ مڈل اسکول میں عربی پڑھانے جاتے ہیں اوروہاں اسٹاف میں زیادہ ترلڑکیاں ہیں ،اکثرگزرتے ہوئے ،راہداری میں نوک جھوک یاچھیڑ چھاڑ ہوتی ہے ،ایک دفعہ عالم دین صاحب نے اپنے ساتھی استاذ سے استانی کے پائنچے کے متعلق کہاکہ دیکھو کہ اس کاپائنچہ اتناکھلاہے کہ پوراآدمی اس میں سے گزرسکتاہے ۔ کیاایسے عالم دین کی امامت درست ہوگی ،اوراسکول کے اس ماحول سےحاصل شدہ تنخواہ کی شرعی حیثیت کیاہوگی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔عام حالات میں مخلوط ماحول سے بچنالازم ہے ،جہاں مجبوری ہووہاں مخلوط ماحول میں پڑھانے والے استاذپردرج ذیل باتوں پرسختی سے عمل کرنالازم ہے : ۱۔ اپنااصلاحی تعلق کسی اللہ والے متبع سنت اورمتقی عالم سے رکھے ،اوروقتافوقتاان کواپنے حالات بتاکراپنی اصلاح کروائے۔ ۲۔ممکن ہوتولڑکوں کولڑکیوں سے الگ ایک طرف بٹھایاجائے ۔ ۳۔ توجہ لڑکوں کی طرف رکھے ،لڑکیوں کو قصدانہ دیکھے ۔ ۴۔ بلاضرورت درسگاہ میں یاباہرلڑکیوں سے باتیں نہ کرے ۔ ۵۔ لڑکیوں کوپردے کی ترغیب دیتارہے ۔ اگرکسی کاذہن پختہ اورطبیعت قوی نہ ہواور ایسے ماحول میں پڑھانے سے کسی فتنہ اورگناہ میں مبتلاہونے کااندیشہ ہوتواس کے لئے ایسے مخلوط ماحول میں پڑھاناجائز نہ ہوگا۔ سابقہ شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے اگرکوئی مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھے یاپڑھائے تواس کی اجازت ہے اوراس کی کمائی بھی حلال ہے ،اوراگرکوئی ان اداروں میں پڑھاتاہے اورشرائط کی رعایت نہیں رکھتاتوبے پردگی کے ماحول میں بغیراحتیاط کے جانا توناجائزہے ،لیکن اس سے اس کی کمائی پرکوئی فرق نہیں پڑے گا،کمائی حلال ہوگی ۔ ۲۔تنہائی میں کسی مرد استاذ کالڑکی کوپڑھاناجائزنہیں ،دنیاوآخرت کے لئے نہایت خطرناک ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"لایخلون رجل بامرأۃ الاکان ثالثہماالشیطان" ترجمہ :کوئی مردکسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہانہ بیٹھے اس لئے کہ تیسراوہاں شیطان ہوتاہے ۔ ۳۔امام کوچاہئے کہ وہ اس طرح کی گھٹیاحرکتیں نہ کرے، جس سے لوگ دین اوردینداروں سے بدظن ہوں ،امام کوتومعاشرہ کوٹھیک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ،چہ جائیکہ وہ خودسرعام برائیوں میں مبتلا ہوجائے ۔ امام کے لئے یہ کام ہرگز جائزنہیں ، اگرامام ایسی باتوں کاعادی ہو(لڑکیوں کے ساتھ اس کی چھیڑچھاڑ کی عادت مشہور ہو یا اس کے برے تعلقات مشہورہوں )توپھر مسجد والوں کوچاہئے کہ وہ اس کوامامت سے ہٹاکرکسی اورکوامام بنائیں جومتبع شریعت ہواورگناہوں سے بچتاہو۔ دونوں صورتوں میں کمائی کا وہی حکم ہے جواوپربیان ہوایعنی اگرمذکورہ تفصیل کی رعایت رکھتے ہوئے کمائے توکام بھی حلال ہے اورکمائی بھی ،لیکن اگر کوئی تنہاکسی لڑکی کوپڑھاتاہے یاامام افعال قبیحہ کامرتکب ہے توان صورتوں میں برے کاموں کاگناہ توہوگا،لیکن پڑھاناجائزہے ،اوراس کی کمائی حلال ہوگی ۔
حوالہ جات
"قال اللہ تعالی فی سورۃ الاحزاب" آیت 33 : وقرن فی بیوتکن ولاتبرجن تبرج الجاہلیۃ الاولی واقمن الصلاۃ وآتین الزکاۃ وأطعن اللہ ورسولہ انمایریداللہ لیذھب عنکم الرجس أھل البیت ویطہرکم تطہیرا۔ "وقال اللہ تعالی فی سورۃ النور" آیت 30: قال اللہ تعالی: قل للمؤمنین یغضوامن أبصارہم ویحفظوافروجہم ذالک أزکی لہم ان اللہ خبیربمایصنعون ۔ "سنن الترمذي " 4 / 465: حدثنا أحمد بن منيع حدثنا النضر بن إسمعيل أبو المغيرة عن محمد بن سوقة عن عبد الله بن دينار عن ابن عمر قال :خطبنا عمر بالجابية فقال يا أيها الناس إني قمت فيكم كمقام رسول الله صلى الله عليه و سلم فينا فقال أوصيكم بأصحابي ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يفشوا الكذب حتى يحلف الرجل ولا يستحلف ويشهد الشاهد ولا يستشهد ألا لا يخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان عليكم بالجماعة وإياكم والفرقة فإن الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين أبعد من أراد بحبوحة الجنة فيلزم الجماعة من سرته حسنته وساءته سيئته فذلك المؤمن۔ قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه وقد رواه ابن المبارك عن محمد بن سوقة وقد روي هذا الحديث من غير وجه عن عمر عن النبي صلى الله عليه و سلم صحيح ۔ "ردالمحتارعلی الدرالمختار" 9 / 449 : ولایکلم الأجنبیۃ الاعجوزاعطست اوسلمت فیشمتہالایردالسلام علیھا،وفی تنویرالأبصار وماحل نظرہ حل لمسہ الامن أجنبیۃ فلایحل مس وجھہاوکفیہاوان أمن الشہوۃ لانہ اغلظ الی قولہ الخلوۃ بالاجنبیۃ حرام ۔ " حاشية رد المحتار" 1 / 438: ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الامام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنةعنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لان ذلك ليس بصحيح، فإنا نجيز الكلام مع النساء للاجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها، لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم۔ "البحرالرائق" 8 /353 : ولاینظر من اشتھی الی وجھھاالاالحاکم والشاہد وینظرالطبیب الی موضع مرضہا،والاصل انہ لایجوز ان ینظر الی وجہ الاجنبیۃ بشہوۃ لمارویناالاللضرورۃ ۔ وقال فی نظرالطبیب الی موضع مرضہا۔۔۔۔ثم ینظر ویغض بصرہ عن غیرذالک الموضع ان استطاع لان ماثبت بالضرورۃ تتقدر بقدرھا۔ "المبسوط" 18 / 453: ويكره له أن يستأجر امرأة حرة أو أمة يستخدمها ويخلو بها لقوله صلى الله عليه وسلم { لا يخلون رجل بامرأة ليس منها بسبيل فإن ثالثهما الشيطان } ، ولأنه لا يأمن من الفتنة على نفسه ، أو عليها إذا خلا بها ، ولكن هذا النهي لمعنى في غير العقد فلا يمنع صحة الإجارة ووجوب الأجر إذا عمل كالنهي عن البيع وقت النداء .۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب