021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث کامسئلہ
56807میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

حضرت مفتی صاحب میرسوال یہ ہےکہ سوال :میری والدہ نے اپنی حیات کے دوران بڑے بھائی سے کہاکہ سب بھائی مل کرپلاٹ خریدواوررہائش کے لئے گھرتعمیرکرو،کیونکہ ہم کرائے کے مکان میں رہتے تھے،سب سے بڑے بھائی نے پلاٹ خریدا،مگروہ مکان نہیں بناناچاہتے تھے،پھروالدہ نے چھوٹے بھائی کے نام پلاٹ منتقل کروادیاتاکہ وہ مکان تعمیر کرے ،پلاٹ ہمارے والدین کی ملکیت تھا،جووالدہ نے چھوٹے بھائی کے نام کروادیا،مکان کی تعمیرشروع ہوئی اوراسی دوران والدین کاانتقال ہوگیا،اورچھوٹے بھائی نے جہاں تک ممکن تھامکان تعمیر کردیا،بعد میں باقی تعمیر کے لئے والدہ کے ترکہ سے جوپیسہ وصول ہواوہ بھی مکان پرلگادیاگیا،اوربعدمیں باقی سب بہن بھائیوں نے مل کراپنی اپنی استطاعت کے مطابق مکان کی تعمیر مکمل کردی ،دس سال کے بعد جب جگہ تنگ پڑگئی توچھوٹے بھائیوں نے بالائی منزل تعمیرکردی،جس پربڑے دوبھائیوں نے کوئی بھی خرچہ نہیں کیا،مکان کی تعمیرکوتقریبا 19،20 سال کاعرصہ گزرچکاہے،والدین کووفات پائے بھی 18 سال کاعرصہ گزرچکاہے۔اب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ابوسلیمان جن کاتعمیر میں 50 فیصدحصہ بنتاہےاورپلاٹ میں بارہ بہنیں اوربھائی وراث ہیں،جن میں ابوسلیمان کابھی حصہ بنتاہے،ان کاکہنایہ ہے کہ مکان میری ملکیت ہوگیاہے،کیونکہ اس وقت والدہ نے بامرمجبوری پلاٹ ان کے نام کردیاتھا،تاکہ وہ مکان کی تعمیر کردے،ان کاکہناہے کہ قانون کی روسے اب یہ میرامکان ہے اورہم لوگ جواس میں رہائش پذیررہے ،ہماراحق ملکیت اس پرختم ہوگیاہے اورمیں چونکہ اس مکان میں رہائش پذیرنہیں رہا،لہذامیراحق اس پرسب سے مقدم ہوگیاہے،ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے حدتک جوبھی حصہ بنتاہے وہ ہمارے نام منتقل کردیں تاکہ بعدمیں ہمیں کوئی مسئلہ درپیش نہ رہے،مگروہ سرے سے ہمارے حق ملکیت سے ہی انکاری ہیں،جن دوبھائیوں کاتعمیرمیں حصہ نہیں ہے وہ بھی ہمارے حق کولینے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں ،ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے حق ملکیت کوقرآن وسنت کی روشنی میں واضح کیاجائے ،کیاان کے موقف کے مطابق ہماراحق مکان سے ختم ہوچکاہے،جبکہ وہ صرف پلاٹ میں ہماراحق تسلیم کرتے ہیں اوربقول ان کے کہ ہم چھوٹے بھائی 16 سال سے رہائیش پذیرتھےتووہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے حصے کامکان استعمال کرلیا،اورمیں نے اسی دوران یعنی ابوسلیمان ساراعرصہ پشاور میں گزارااس لئے ابھی صرف میراہی حق مکان پررہ گیاہے،گزارش ہے کہ ساری بات کومدنظر رکتھے ہوئے حق ملکیت کوقرآن وسنت کی روشنی میں واضح کیاجائے نیز یہ بھی بتایاجائے کہ جوبندہ کسی کےجائزحق کوروکے وہ قرآن وسنت کی روشنی میں گنہگاررہے گا۔ مستفتی کی طرف سے استفتاء کی مزید وضاحت : ۱۔پلاٹ کاقبضہ صرف ابوسلیمان کونہیں دیاتھا،بلکہ سب بھائی اس کواستعمال کررہے تھے۔ ۲۔پلاٹ والدہ کی طرف سے تھا،جوکہ ابوسلیمان کے نام اس لئے کیاتھاتاکہ وہ قرض لے کے پوری فیملی کے لئے گھربنادے۔ ۳۔والدہ کاانتقال گھرکی تعمیر کے دوران ہوگیاتھا،٫1996 میں۔ ۴۔والدہ کاترکہ نقدی اورسونابغیر تقسیم کے ساراگھرکی تعمیر میں لگادیا۔ ۵۔والدہ کے دوسال بعد والد کابھی انتقال ہوگیاتھا1998 ٫میں ۔ تقریبا 50 فیصد رقم کنسٹرکشن میں ابوسلیمان کی لگی ہے ،اورباقی 50 فیصد: ابراہیم بھائی کے 16فیصد۔۔۔ابوعبداللہ کے 9٫1فیصد۔۔۔ابوداؤدکے 9 فیصد۔۔۔بہن( مسز اجمل )کے 5٫5 فیصد۔۔۔۔ام حارث کے 1٫4 فیصد۔۔۔۔والدہ کاترکہ 2 فیصد۔۔۔۔ام اسامہ کے 1فیصد۔۔۔ابوارقم کے 1 فیصد۔ یہ نیچےوالے پورشن کی کنسٹرکشن ہے جبکہ اوپر والے پورشن ابراہیم بھائی اورابوداؤد نے مل کربنایاجس میں 50 فیصدابراہیم اور50فیصد ابوداؤد کے لگے ہیں ۔ باقی بہن بھائی چونکہ چھوٹے( نابالغ) تھےاس لئے ان کی کوئی رقم اس تعمیر میں نہیں لگی ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں مذکورہ مکان والدہ کاہی شمارہوگا،اوربطورمیراث تمام ورثہ میں بقدرحصص تقسیم ہوگا،اوروالدہ کی وفات کے وقت مکان کی قیمت اورجتنااس پرتعمیر کاخرچہ ہواہے وہ سب میراث شمارہوگا،البتہ وفات کے بعد جس بھائی کاجتناخرچہ ہواہےاس کاالگ الگ حساب کرکےپورے مال میں سے نکال کرباقی میراث شمارہوگا۔ یہ دیکھاجائےکہ والدہ کی وفات کے وقت مکان جتناتعمیر ہواتھا،اس کی کیاقیمت تھی وہ قیمت والدہ کے باقی مال میں ملاکرمیراث ہوگی اورتمام بیٹے بیٹیوں میں اس طرح تقسیم ہوگی کہ ہربھائی کوبہن کے حصے کادوگناملے گا۔ رہامسئلہ کہ وفات کے بعد سب بہن بھائیوں نے مل کرتعمیرکروائی تواس کاطریقہ یہ ہے کہ موجودہ مکان کی قیمت لگائی جائے پھراس قیمت میں ہربہن بھائی نے جتنافیصد خرچہ کیاہے اس کاحساب کرکے کوئی ایک بھائی ساری قیمت اداء کرے اورباقیوں کوان کی تعمیرکاخرچہ دیدےتو پورےمکان کامالک ہوجائےگا۔ مثلاپورے مکان کی قیمت 5000000لاکھ ہے تواس میں دیکھاجائے کہ نیچے والے پورشن کی قیمت کتنی ہے،اوراوپروالے پورشن کی کتنی؟پھریہ دیکھاجائے کہ کس بھائی نے کتنافیصد لگایاہے،مثلاابوسلیمان نے نیچے والے حصے میں 50فیصد لگایاہے تونیچے والے پورشن کی قیمت میں سے 50فیصد ابوسلیمان کودینے ہوں گے اورباقی میں ہرایک کا جتنافیصدبنتاہے وہ دیاجائے ،اوپروالے پورشن میں چونکہ صرف چھوٹے دوبھائیوں نے خرچہ کیاہے توان کالگایاہواخرچہ ان کودیدیاجائے۔ اس طرح جوبھائی بھی سب بہن بھائیوں کوان کالگایاہواخرچہ دیدے گاتووہ مکمل مکان کامالک ہوجائے گا۔ اوراگرکوئی ایک اس طرح(پورے مکان)کی قیمت کی ادائیگی نہیں کرتاتونیچے والاپورشن سب بہن بھائیوں میں(جنہوں نے اس کی تعمیر میں حصہ لیاہے)مشترک ہوگااورہرایک اس میں اپنے اپنے اخراجات کی وجہ سے رہنے کاحق رکھتاہے ،جبکہ اوپروالاپورشن چھوٹے دوبھائیوں میں مشترک ہوگا۔ سب کے مشترک ہونے کایہ مطلب نہیں کہ اگرکوئی اس میں زیادہ رہ رہاہے تواس کے استعمال کی وجہ سے اس کاحق ختم ہوگیا،بلکہ یہ سب بہن بھائیوں میں مشترک ہوگااورسب کوبرابررہنے کاحق ہوگا،ابوسلیمان کاچھوٹے بھائی کواس طرح کہناکہ آپ چونکہ 16سال سے رہ رہے ہیں تواستعمال کی وجہ سے آپ کاحق ختم ہوگیاہے،یہ بات درست نہیں ہے،البتہ چھوٹابھائی جتناعرصہ اس مکان میں رہاہے،اگر باقی بھائی اس کے رہنے پرراضی تھے تواس پررہنے کی وجہ سے کچھ لازم نہ ہوگااوراگرباقی بھائی راضی نہ تھے توچھوٹے بھائی سے اس مشترکہ گھرمیں رہنے کاکرایہ وصول کیاجاسکتاہے،جتناعرصہ وہ رہاہے اس کاحساب کرکے کرایہ لے لیاجائے۔
حوالہ جات
"تنقیح الفتاوی الحامدیۃ "2/88 سئل فی رجل بنی بمالہ لنفسہ قصرافی دارابیہ باذنہ ثم مات ابوہ عنہ وعن ورثتہ فہل یکون القصر لبانیہ ویکون کالمستعیر (الجواب)نعم کماصرح بذالکل فی حاشیۃ الاشباہ عند قولہ من بنی فی ارض غیرہ بامرہ فہولمالکہا ومسئلۃ العمارۃ کثیرذکرھا فی الفصول العمادیۃ ،والفصولین،وغیرھا،وعبارۃ المحشی بعدقولہ ویکون کالمستعیر فیکلف قلعہامتی شاء ۔ "تنقیح الفتاوی الحامدیۃ "2/120 ونقل المؤلف عن الفتاوی الرحیمیۃ سئل عن مال مشترک بین أیتام وامہم استربحہ الوصی لأیتام ھل تستحق الام ربح نصیبہاأولاأجاب لاتستحق الام شیئا ممااستربحہ الوصی بوجہ شرعی لغیرھاکاحد الشریکین اذااستربح من مال مشترک لنفسہ فقط ویکون ربح نصیبہاکسباخبیثا ومثلہ سبیلہ التصدق علی الفقراء اقول ایضا ویظہر من ھذاومماقبلہ حکم مالوکان المباشر للعمل والسعی بعض الورثۃ بلاوصایۃ اووکالۃ من الباقین۔قال فی الغیاثیۃ ولوتصرف احدالورثۃ فی الترکۃ المشترکۃ وربح فالربح للمتصرف وحدہ ۔ "المحيط البرهاني في الفقه النعماني" 16 / 7: إذا سكن الرجل في دار رجل ابتداء من غير عقد، فإن كانت الدار معدة للاستغلال يجب الأجر، وإن لم تكن معدة للاستغلال لا يجب الأجر إلا إذا تقاصا صاحب الدار بالأجر وسكن بعد ما تقاصاه؛ لأن سكناه تكون رضا بالأجر، قالوا: وفي المعدة للاستغلال إنما يجب الأجر على الساكن، إذا سكن على وجه الإجارة عرف ذلك عنه بطريق الدلالة أما إذا سكن بتأويل عقد أو تأويل ملك كبيت أو حانوت بين رجلين سكن أحدهما فيه لا يجب الأجر على الساكن، وإن كان ذلك معداً للاستغلال۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

فیصل احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب