کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں:
ایک مسجد کے ارد گرد قبریں ہیں ،اب مسجد کی توسیع کی جا رہی ہےاور توسیع کی صورت میں وہ قبریں مسجد کی حدود میں داخل ہو رہی ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ ان قبروں کو منہدم کر کے مسجد کے حصے میں شامل کر سکتے ہیں یا نہیں؟جب کہ قبرستان چالیس سال پرانا ہےاور یاد رہے کہ قبرستان کی زمین وقف شدہ ہے
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
وقف شدہ قبرستان میں جب تک قبریں موجود ہوں اس کو مسجد میں شامل کرنا درست نہیں،البتہ اگر قبرستان پرانا ہو گیا ہو،اس میں لوگوں نے اموات دفن کرناچھوڑ دی ہوں اورقبروں کے نشان بھی مٹ گئے ہوںاور ان پر اتنا عرصہ گزر گیا ہوکہ مردوں کےبالکل بوسیدہ ہونے کاظنِ غالب ہو جائےتو اس صورت میں قبرستان کی زمین کو ہموار کر کے مسجد میں شامل کرنا جائز ہے۔
حوالہ جات
قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى:شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به. (الدر المختار:4/ 433)
قال العلامةالعینی رحمه الله تعالى:هل يجوز أن تبنى على قبور المسلمين قلت قال ابن القاسم لو أن مقبرة من مقابر المسلمين عفت فبنى قوم عليها مسجدا لم أر بذلك بأسا وذلك لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمين لدفن موتاهم لا يجوز لأحد أن يملكها فإذا درست واستغنى عن الدفن فيها جاز صرفها إلى المسجد لأن المسجد أيضا وقف من أوقاف المسلمين لا يجوز تملكه لأحد فمعناهما على هذا واحد. (عمدة القاري:6/473)
وفی الفتاوى الهندية:مقبرة كانت للمشركين أرادوا أن يجعلوها مقبرة للمسلمين فإنكانت آثارهم قد اندرست فلا بأس بذلك، وإن بقيت آثارهم بأن بقي من عظامهم شيء ينبش ويقبر ثم يجعل مقبرة للمسلمين؛ لأن موضع مسجد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كان مقبرة للمشركين فنبشت واتخذها مسجدا، كذا في المضمرات.
(2/ 469)
قال العلامة الزيلعي رحمه الله تعالى ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه. (تبيين الحقائق:1/246)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه. (رد المحتارعلى الدر المختار:2/233)