مفتی صاحب! عرض یہ کرنا تھا کہ جو لوگ گاڑیوں کا کام کرتے ہیں ، تو ان کے یہا ں یہ بات طے ہوتی ہے کہ جس نے گاڑی بکوائی تو وہ مالک سے 5000 روپے لے گا اور جس کو دلوائی اس سے بھی اتنے ہی لےگا ، تو اس طرح سے پیسے متعین کرنا صحیح ہے؟ اور ایک اصول یہ بھی ہے کہ جس کی دوکان پر گاڑی کھڑی کرکے بیچی ہے اس شوروم والے کو بھی متعین پیسے دے گا، تو کیا یہ صحیح ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
دلال کے لیے جانبین (جس کی گاڑی بکوائی اور جس کو دلوائی) سے متعین اجرت لینا جائز ہےلہذا پوچھے گئے سوال میں 5ہزار کی رقم چونکہ متعین ہے، اس لیے لینا جائز ہے۔
جس کی دوکان پر گاڑی کھڑی کرکے بیچی ہے اس شوروم والے کو بھی متعین پیسے دینا جائز ہے اس لیے کہ اس جگہ کا کرایہ ہے جو اس نے استعمال کی ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار (4/ 560)
وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 560)
(قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين.