کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسائل کے بارے میں کہ:
اگر زید کہیں ٹیوشن پڑھانا شروع کرے اور جیسا کہ عرف ہے کہ بس فیس طےکی جاتی ہے اور ٹیوشن شروع کردیا جاتا ہے۔ اگر کسی دن زید کسی ایمرجنسی کی وجہ سے چھٹی کرلے تو کیا اس کے لیے اس دن کے پیسے لینا جائز ہے۔ اگر زید نے چھٹیان بہت زیادہ کی ہوں تو اس کے لیے ان چھٹیوں کی اجرت لینے کا کیا حکم ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں زید اگر کسی دن کسی ایمرجنسی کی صورت میں چھٹی کرے تو اس کے لیے اس دن کی اجرت لینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر زید ٹیوشن پڑھانے سے پہلے یہ طے کرے کہ اگر وہ کسی دن ایمرجنسی کی وجہ سے چھٹی کرے تو اس کی فیس میں کمی نہیں کی جائے گی اور اس پر اس کو فیس دینے والے راضی بھی ہوں تو اس کی اجرت میں کمی نہیں کی جائے گی۔ اگر زید نے بہت چھٹیاں کی ہوں تو اس کے لیے ان چھٹی کے دنوں کی اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر زید نے چھٹی سے متعلق پہلے سے کچھ طے نہ کیا ہو تو ایسے میں عرف کا اعتبار ہے، عرفاً جتنی رخصت معاف ہوتی ہے وہ معاف ہے یعنی اس کی کٹوتی نہیں ہوگی، اگر کوئی واضح عرف نہ ہو تو پھر کٹوٹی ہوگی۔
حوالہ جات
"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى… (قوله لواحد) أي لمعين واحدا أو أكثر. قال القهستاني: لو استأجر رجلان أو ثلاثة رجلا لرعي غنم لهما أو لهم خاصة كان أجيرا خاصا كما في المحيط وغيره… (قوله وإن لم يعمل) أي إذا تمكن من العمل، فلو سلم نفسه ولم يتمكن منه لعذر كمطر ونحوه لا أجر له كما في المعراج عن الذخيرة."
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)6/69 ط:دار الفکر- بیروت)
" أجير الواحد يستحق الأجر وإن لم يعمل، لكن في البزازية يستحق الأجر بلا عمل، لكن لو لم يعمل لعذر كمطر وغيره لا يلزم الأجر سائحاني."
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)6/43 ط:دار الفکر-بیروت)