021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بائع کامشتری اول کومالی جرمانہ دےکرمشتری ثانی کوجانور بیچنے کی صورت میں ایسے جانور کی قربانی کاحکم
57516;غصب اورضمان”Liability” کے مسائل متفرّق مسائل

سوال

کہ ایک آدمی مثلا زید نے عمر(بائع) سے ایک گائے 40 ہزار کی خریدی اور اسی وقت زید (مشتری) نے عمر (بائع) کو کچھ رقم جوکہ 2ہزار تھی ،بھی حوالہ کردی جو کہ علاقہ کے عرف کے مطابق سودے کی پختگی ہی ہوتی ہےاور بعد میں یہی رقم قیمت کا حصہ بھی سمجھی جاتی ہے۔(مطلب یہ ہوتا ہے کہ دوہزار ابھی دیے اور باقی 38 ہزار چیز کی وصولی کے وقت) پھر ہوا یوں کہ عمر(بائع) نے یہی گائے کسی تیسرے آدمی (بکر) کو 45 ہزار میں بیچ ڈالی۔اور چونکہ گائے ابھی تک بائع کے پاس تھی اس لیے بکر (مشتری ثانی) کے حوالہ بھی کردی۔ بعد میں جب بائع مطالبہ کے وقت مشتری اول کوحوالہ کرنے پر قادر نہ رہاتو اس غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے بائع نے قیمت اول (جس پر اس نے زید ،مشتری اول کو بیچی تھی) سے زائد رقم( 5000 ) پیشگی رقم سمیت مشتری اول کے حوالہ کردی۔ اس تفصیل کی روشنی سوال یہ ہےکہ ازالہ غلطی کے واسطے قیمت اول سے زائد رقم مشتری اول کو دینے اور مشتری اول کے لیے لینے کی صورت میں چونکہ یہ جانور قربانی کا تھا ،تو مشتری ثانی کے قربانی پر کوئی فرق پڑے گا یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر پہلی بیع حتمی ہو گئی تھی تو اس صورت میں بکر ( مشتری ثانی) نے دوسرے آدمی کے جانور کو خریدا ہے جو کہ شرعا عمر کی ملکیت سے نکل چکا تھا ، لہذا یہ گائے غصب کے حکم میں ہے۔ غصب شدہ جانور کی قربانی کا حکم یہ ہے کہ غاصب اگر زندہ جانور کا ضمان ادا کرے تو اس کی قربانی جائز ہو جائیگی ،اس لیے کہ ضمان کی ادائیگی کے بعد اس کی ملکیت ابتدا سے حاصل ہوتی ہے اوراس کی قربانی مملوکہ جانور کی قربانی قرار پاتی ہے،تاہم غصب کی وجہ سے گناہ گار ہوگا اور اگر جانور کا مالک اس جانور کو ذبح شدہ حالت میں ہی واپس لیتا ہے اور ذبح کی وجہ سے قیمت میں جو کمی ہوئی ہے،وہ وصول کرتا ہے تو اس صورت میں قربانی نہ غاصب کی طرف سے ادا ہوتی ہےاور نہ ہی اصل مالک کی طرف سے ۔
حوالہ جات
"قال في البدائع: غصب شاة فضحى بها عن نفسه لا تجزئه لعدم الملك ولا عن صاحبها لعدم الإذن، ثم إن أخذها صاحبها مذبوحة وضمنه النقصان فكذلك لا تجوز عنهما وعلى كل أن يضحي بأخرى، وإن ضمنه قيمتها حية تجزئ عن الذابح لأنه ملكها بالضمان من وقت الغصب بطريق الاستناد فصار ذابحا شاة هي ملكه فتجزيه ولكنه يأثم لأن ابتداء فعله وقع محظورا فيلزمه التوبة والاستغفار اهـ. أقول: ولا يخالف هذا ما مر عن الأشباه والزيلعي من أنه إن ضمنه وقعت عن الذابح وإلا فعن المالك لأن ذاك فيما إذا أعدها صاحبها للأضحية فيكون الذابح مأذونا دلالة كما مر تقريره وهنا في غيره، ولذا عبروا هنا بشاة الغصب ولم يعبروا بأضحية الغير فافهم۔" الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 331) "اشتری شاۃ فامر البائع انسانا ان یذبحھا ، ان علم الذابح بالبیع فللمشتری ان یضمنہ الا انہ لو ضمنہ لا یرجع علی البائع ۔" شرح المجلۃ للاتاسی(1/177) واللہ سبحانہ و تعالی اعلم نصیر احمد دارالافتاء جامعۃالرشید 03 رجب المرجب 1438ھ "ومن ذبح شاة غيره فمالكها بالخيار: إن شاء ضمنه قيمتها وسلمها إليه وإن شاء ضمنه نقصانها ومن خرق ثوب غيره خرقا يسيرا ضمن نقصانه وإن خرقه خرقا كثيرا يبطل عامة منفعته فلمالكه أن يضمنه جميع قيمته وإذا تغيرت العين المغصوبة بفعل الغاصب حتى زال اسمها وأعظم منافعها زال ملك المغصوب منه عنها وملكها الغاصب وضمنها ولم يحل له الانتفاع بها حتى يؤدي بدلها وهذا كمن غصب شاة فذبحها وشواها أو طبخها أوغصب حنطة فطحنها أو حديدا فاتخذه سيفا أو صفرا فعلمه آنية" مختصر القدوري (ص: 129) "(رجل ذبح أضحية غيره بغير إذنه ففي القياس هو ضامن لقيمتها، ولا يجزيه من الأضحية) وهو قول زفر؛ لأنه متعد في ذبح شاة الغير فكان ضامنا كمن ذبح شاة القصاب، ثم الأضحية لا تتأدى إلا بعمل المضحي وبيته ولم يوجد ذلك حين فعله الغير بغير إذنه ففي القياس هو ضامن لقيمتها، ولا يجزيه من الأضحية، ولكنا نستحسن ونقول يجزئه، ولا ضمان على الذابح؛ لأنه لما عينها للأضحية فقد صار مستغنيا بكل واحد" المبسوط للسرخسي (12/ 17) الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 648) وإن تشاحا ضمن كل لصاحبه قيمة لحمه وتصدق بها. قلت: في أوائل القاعدة الاولى من الاشباه: لو شراها بنية الاضحية فذبحها غيره بلا إذنه، فإن أخذها مذبوحة ولم يضمنه أجزأته، وإن ضمنه لا تجزئه، وهذا إذا ذبحها عن نفسه. أما إذا ذبحها عن مالكها فلا ضمان عليه اه. فراجعه (كما) يصح (لو ضحى بشاة الغصب) إن ضمنه قيمتها حية كما إذا باعها، وكذا لو أتلفها ضمن لصاحبها قيمتها. هداية. لظهور أنه ملكها بالضمان من وقت الغصب (لا الوديعة وإن ضمنها) لان سبب ضمانه هنا بالذبح والملك يثبت بعد تمام السبب وهو الذبح فيقع في غير ملكه. قلت: ويظهر أن العارية كالوديعة والمرهونة كالمغصوبة لكونها مضمونة بالدين، وكذا المشتركة، فليراجع۔ اب اگر بائع ، مشتری اول کے قبضہ کرنے سے پہلے مبیع کو دوسرے شخص کو بیچتا ہے تو اس صورت میں پھر تفصیل ہے۔ وہ یہ کہ بائع نے اگر بیع مشتری اول کی اجازت سے کی ہے تو دوسری بیع قبل القبض ہونے کی بنا پر جائز نہیں۔لہذا مبیع ،مشتری اول ہی کی ملکیت میں ہے ۔اب اگر مبیع موجود ہے تو مشتری اول واپس اس کو لے گا ،اور
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب