021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وارث کے حق میں وصیت کاحکم
57539میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے والد صاحب مرحوم مسمی گلزار خان کا انتقال ہوچکاہے بوقت انتقال مرحوم کے ورثا میں تین بیٹے بنام پرویز خان ، جاوید خان ،شمریز خان اور چار بیٹیاں بنام رضیہ ، فرزانہ ، فوزیہ شازیہ اور بیوہ آسیہ خاتون حیات تھے ،مرحوم کے ایک بیٹا مسمی اورنگزیب کا انتقال مرحوم کے حیات ہی میں ہوگیاتھا ،البتہ ان کی اولاد موجود ہیں ۔ والد مرحوم کے انتقال ہمارہ بہن مسماة فوزیہ بی بی کا انتقال ہوچکاہے ، مرحومہ کے ورثا میں شوہر بنام اتمان خان تین بیٹے نعمان ،ارسلان ، عثمان اور ایک بیٹی مریم بقت انتقال موجود تھے ۔ ہمارے والد مرحوم نے صرف ایک مکان چھوڑا ہے جس میں ہم سب رہائش پذیر ہیں ۔ ١۔اب سوال یہ ہے کہ والد صاحب کے متروکہ مکان ہماری بہنوں کا حصہ ہے یا نہیں ؟ جبکہ وہ ساری شادی شدہ ہیں ۲۔ ہمارے جس بھائی کا انتقال والد مرحوم سے پہلے ہوچکاہے ان کی اولاد کاہمارے والد مرحوم کے ترکہ میں کوئی حصہ ہے یانہیں ؟ ۳۔اور ہماری جوبہن والد مرحوم کے انتقال کے بعد وفا ت پاچکی ہے ان کے ورثا کا ترکہ میں کوئی حصہ ہے یا نہیں ؟ ۴۔شریعت کی روشنی میں ہر وارث کا حق مقرر کرکے الگ الگ لکھیں ۔ واضح رہے کہ مرحوم نے مذکورہ مکان کے متعلق ایک وصیت نامہ بھی تحریر کیا تھا ،جس کی کاپی سوال کے ساتھ منسلک ہے ،اس کی شرعی لحاظ سے کیا حثیت ہے ؟ وضاحت فرمائیں

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعی ضابطہ کے مطابق وارث کے حق میں وصیت نافذ نہیں ہوتی بیوہ بھی چونکہ وارث ہے اس لئے یہ وصیت نافذ نہیں ہوئی لہذا مکان بدستور آپ کے والد مرحوم کی ملک میں باقی ہے ۔ سوالات کے جوابات یہ ہیں ١۔والد کےمتروکہ مکان میں بہنوں کا حصہ ہے اگرچہ ان کی شادی ہوچکی ہے ۔ ۲۔نہیں ہے ۳۔ چونکہ اس بیٹی کا انتقال والد کے بعد ہوا ہے اس لئے میراث میں ان کاحصہ ہے جو بعد میں ان کے ورثا میں تقسیم ہوگا ۔ ۴۔مرحوم نے بوقت انتقال منقولہ غیر منقولہ جائداد نقدی ، سونا چاندی اور چھوٹا بڑا جوبھی سامان اپنی ملک میں چھوڑا ہے سب مرحوم کا ترکہ ہے اس میں سے اولا ً کفن دفن کا متوسط خرچہ نکا لاجائے ،بشر طیکہ یہ خرچہ کسی نے بطور احسان ادا نہ کیا ہو اس کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ کسی قرض ہو تو اس کو چکایا جائے اس کے بعد اگر مرحوم نے کوئ جائز وصیت کی ہو تو تہائی مال تک اس کو نافذ کیا جائے ۔اس کے بعد کل مال کی تقسیم اسطرح ہوگی کہ بیوہ کاحصہ = ٪ 5 .12 تینوں لڑکیوں میں سے ہرایک کاحصہ = ٪ 722 . 9 اور تینوں لڑکوں میں سے ہر ایک کاحصہ = ٪ 444 . 19 مرحومہ فوزیہ کے انتقال کے ان کی ملک میں منقولہ غیر منقولہ جائداد ،سونا چاندی ،نقدی اور دیگر چھوٹا بڑا جو بھی سامان ہے وہ سب مرحومہ کا ترکہ ہے اس میں والد کی میراث سے ملنے والا حصہ بھی شامل کریں ۔ حقوق متقدمہ علی الارث کے بعد کل مال میں شوہر اتمان خان کا حصہ = ٪ 25 اور تینوں لڑکوں میں سے ہر ایک کا حصہ = % 428 . 21 اور لڑکی کا حصہ= % 714 . 10
حوالہ جات
.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب