021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
(DSP) فنڈ سے ملنے والی رقم کا حکم
46خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

پاکستان نیوی کے ملازمین کی تنخواہ سے ہر مہینے کچھ رقم ڈی ایس پی فنڈ کے نام سے کٹتی ہے،اس کٹوتی پر ملازمین کا کوئی اختیار نہیں ہوتا،کوئی چاہےیا نہ چاہے یہ رقم ہر صورت میں کٹتی ہےاور اس رقم پر سالانہ مختلف تناسب سے منافع یا سو دلگتا ہے،مثلاًکبھی 11.5% تو کبھی 13% کے حساب سے،یعنی ہر سال تناسب کا فرق ہوتا ہے۔ملازمین کو یہ علم بھی نہیں کہ یہ رقم کہاں اور کس کاروبار میں استعمال ہوتی ہے۔ ملازمین کو یہ اختیار حاصل ہےکہ اس رقم میں اضافہ کر سکیں،البتہ یہ اختیار ہرگز نہیں کہ یہ کٹوتی مکمل طور پر ختم کر سکیں اور حال ہی میں ملازمین کو یہ اختیار ملا کہ وہ ا سرقم پر ملنے والا منافع یا سود لیں یا نہ لیں۔اس جمع شدہ رقم پر ملازمین کا مکمل اختیار نہیں ،یہ جمع شدہ رقم حاصل کرنے کی بھی چند شرائط ہیں: 1۔یہ رقم ٪80 سے زائد نہیں نکلوائی جاسکتی۔ 2۔اگر ملازم کی نوکری 5 سال سے زیادہ رہتی ہو تو نکلوائی ہوئی رقم اسقاط میں واپس کرنا ضروری ہے۔ 3۔اگر ملازم کی نوکری 5 سال سے کم رہتی ہو تو پھر نکلوائی ہوئی رقم لوٹانا ضروری نہیں۔ 4۔نوکری مکمل ہونے یا ریٹائرمنٹ پر یہ رقم ملازم کو دے دی جاتی ہے۔ ہم نے اپنے طور پر معلومات کی بھرپور کوشش کی کہ یہ ڈی ایس پی فنڈ کے نام سے کٹنے والی رقم کہاں جاتی ہےاور کس کاروبار میں استعمال ہوتی ہےتو ہمیں کہیں سے بھی تصدیق شدہ جواب نہ ملا،البتہ چند باتیں جو سننے میں آئیں وہ یہ ہیں کہ یہ رقم ہاؤسنگ اسکیم ،لائف انشورنس اور مختلف بینکوں کو کاروبار کے لیے دی جاتی ہیں۔ سوال نمبر 1۔DSP فنڈ پر ملنے والی اضافی رقم جائز ہے یا نا جائز؟ سوال نمبر2۔ DSPفنڈ پر ملازمین کی ہر صورت میں کٹنے والی رقم پر ملنے والی زائد رقم لینا جائز ہے یا نہیں؟ سوال نمبر3۔اگر ملازم اپنی مرضی سے اس کٹوتی میں اضافہ کرواتا ہےتو ملنے والی زائد رقم جائز ہے یا نہیں؟ (مثلاً 75 روپے ہر صورت کٹتے تھے اب ملازم نے یہ کٹوتی بڑھاکر 500 روپے کر دی تو ملنے والی زائد رقم جائز ہے یا ناجائز) سوال نمبر4۔اس DSPفنڈ پر ملازم کا مکمل اختیار نہیں لیکن اگر کسی کے DSP اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم اس حد تک پہنچ جائے جس پر زکوۃ لاگو ہوتی ہےتو اس پر زکوۃ دینا فرض ہے یا نہیں؟اور اسی طرح قربانی کا اور حج کا کیا حکم داخل ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

2، 1۔ڈی ایس او پی فنڈ کے تحت ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے وقت جو رقم ملتی ہے وہ سود میں داخل نہیں ہے، اس لیے ملازمین کے لیے یہ رقم لینا جائز ہے، کیونکہ تنخواہ سے جس رقم کی کٹوتی ہوتی ہے وہ چاہے حکومت کی طرف سے لازمی ہو یا ملازم کی اپنی مرضی سے ہو ، وصول کرنے سے پہلے وہ رقم ملازم کی ملکیت نہیں ہوتی بلکہ ادارہ اپنی طرف سے ملازم کے لیے یہ رقم فنڈ میں جمع کرکے سرمایہ کاری کرتا ہےاور اس سے جو نفع حاصل ہوتا ہے اس کو جمع شدہ رقم کے ساتھ ملاکر ریٹائرمنٹ کے وقت ملازم کو دیا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ نفع ناجائز طریقے سے کمایا گیا ہو پھر بھی ملازم کے لیے اس کا لینا جائز ہے کیونکہ یہ نفع ادارے کی طرف سے ملازم کو بطور احسان یا اجرت کاحصہ بنا کر دیا جاتا ہے اس لیے یہ سود کی تعریف میں نہیں آتا ۔ 3۔اگر ملازم اپنی مرضی سے کٹوتی میں اضافہ کروائےتو اس میں جتنی رقم کی کٹوتی ملازم اختیاری طور پر کرواتا ہے، اس میں سود کی مشابہت پائی جاتی ہے اس لیے اس سے بچنا بہتر ہےاور اگر ملازم تنخواہ وصول کرنے کے بعد اس کو مذکورہ فنڈ میں جمع کرتا ہے یا ملازم کی اجازت سے کسی اور ادارے میں منتقل کرا کر اس پر اضافہ لگایا جاتا ہے تو پھر یہ ناجائز ہے کیونکہ اس صورت میں ملنے والا نفع اصطلاحی سود میں داخل ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔ 4۔چونکہ ریٹائرمنٹ سے پہلے تک یہ رقم ملازم کی ملکیت میں نہیں ہوتی بلکہ حکومت کے قبضے میں ہوتی ہےاور زکوۃ کے واجب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ رقم ملازم کی ملک میں ہو اس لیےاس پر زکوۃ اور حج کا حکم لاگونہ ہوگا۔
حوالہ جات
وأما بيع حظ الإمام فالوجه ما ذكره من عدم صحة بيعه، ولا ينافي ذلك أنه لو مات يورث عنه؛ لأنه أجرة استحقها ولا يلزم من الاستحقاق الملك كما قالوا في الغنيمة بعد إحرازها بدار الإسلام فإنها حق تأكد بالإحراز، ولا يحصل الملك فيها للغانمين إلا بعد القسمة...... ثم لا يخفى أنها لا تملك قبل قبضها فلا يصح بيعها. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ،4/ 517) إذا كان غالب مال المهدي حلالا لا بأس بقبول هديته وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام و إن كان غالب ماله الحرام لا يقبلها ولا يأكل إلا إذا قال : إنه حلال لا ورثه أو استقرضه. (الأشباه والنظائر ،ص: 137) وأما الشرائط التي ترجع إلى المال فمنها: الملك فلا تجب الزكاة في سوائم الوقف والخيل المسبلة لعدم الملك وهذا؛ لأن في الزكاة تمليكا والتمليك في غير الملك لا يتصور. (بدائع الصنائع: 2/ 9)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب