021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے کی صورت میں مارکیٹنگ اسٹاف کا سروسز چارجزادا کرنا
56254سود اور جوے کے مسائلمختلف بینکوں اور جدید مالیاتی اداروں کے سود سے متعلق مسائل کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علمادینمسئلہذیلمیں! کہ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ ایک اسلامی بینک میں ہے جو کہ اس شرط پر کھولا گیا کہ بینک کے تمام سروسز چارجزجو بینک لاگو کرے گا تو وہ برانچ کی طرف سے قابل واپسی ہوں گے ، چناچہ اگر کسی مد میں ہمارے چارجز بینک کی طرف سے کٹتے ہیں تو مذکورہ برانچ والے اتنی رقم اپنی طرف سے ہمارے اکائونٹ میں ڈپازٹ کروا دیتے ہیں۔ اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس طرح کا معاہدہ شرعاً جائز ہے؟ اور اس طرح لی جانے والی رقم سود کے زمرے میں تو نہیں آتی؟ یاد رہے کہ چارجز کی واپسی میں جو رقم ڈپازٹ کی جاتی ہے وہ بینک کی جانب سے نہیں ہوتی بلکہ برانچ کا مارکیٹنگ اسٹاف اپنی جانب سے ادا کرتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت ِ مذکورہ میں مارکیٹنگ اسٹاف کیطرف سے یہ وعدہ کہ ان کے بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے کی صورت میں بینک کے تمام سروس چارجزکی ادائیگی برانچ کا مارکیٹنگ اسٹاف اپنی جانب سےکرے گا ،درج ذیل دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے : ۱۔اس طرح کا وعدہ کرکے اسٹاف جو ادائیگی کردے اس کے بارہ میں یہ تصریح ہو کہ یہ اسٹاف کی طرف سے اکاؤنٹ ہولڈر کو ہدیہ ہوگا ۔ ۲۔معاملے کے شروع میں ہی یہ وضاحت ہو کہ یہ ادائیگی محض اسٹاف کیصوابدید پر ہوگی،اگر وہ کسی موقع پر انکار کرنا چاہیں تو انہیں پورا قانونی و شرعی حق حاصل ہوگا ۔ان شرائط کے ساتھ اسٹاف جو ادائیگی کریگا وہ سود نہیں ہوگا،کیونکہ ایسی صورت میں یہ معاملہ بینک اور اکاؤنٹ کھلوانے والے کے درمیان نہیں بلکہ اسٹاف اور اکاؤنٹ کھلوانےوالے کے درمیان ہو گا اور یہ سروس چارجز کی رقم اسٹاف کی طرف سے ہدیہ کے طورپرہوگی ،اگرچہ اسٹاف کا اس سے مقصود اپنے بینک کی مارکیٹگ بڑھانااورزیادہ کسٹمرز لاناہو،جس کی بناء پر مارکیٹنگ اسٹاف کو بینک کی طرف سے فوائد حاصل ہوتے ہوں۔

حوالہ جات
فی شرح الوقاية لعلي الحنفي(ج 5 / ص 87): "(وتكره السفتجة) ۔۔۔۔۔۔۔۔وفي «المبسوط»: وإن لم تكن المنفعة مشروطة ولم يكن عرف على ذلك فلا بأس به، حتى لو قضاه أجود مما قبضه ولم يكن ذلك مشروطا ولا عرفا فلا بأس به۔" وفی المحيط البرهاني (ج 7 / ص 285): "وأما هدية المستقرض: إن كانت الهدية مشروطة في الاستقراض فهو حرام، ولا ينبغي للمقرض أن يقبل، فإن لم تكن الهدية مشروطة في الاستقراض، وعلم أنه أهدى إليه لا لأجل الدين أو لأجل الدين، ذكر شيخ الإسلام رحمه الله: أنه لا بأس بقبولها، والتورع عنه أولى، وهكذا حكي عن بعض مشايخنا " وفى رد المحتار(4/662): "وفي الأقضية قسم الهدية وجعل هذا من أقسامها فقال : حلال من الجانبين كالإهداء للتودد وحرام منهما كالإهداء ليعينه على الظلم وحرام على الآخذ فقط ، وهو أن يهدى ليكف عنه الظلم والحيلة أن يستأجره إلخ قال : أي في الأقضية هذا إذا كان فيه شرط أما إذا كان بلا شرط لكن يعلم يقينا أنه إنما يهدي ليعينه عند السلطان فمشايخنا على أنه لا بأس به ، ولو قضى حاجته بلا شرط ولا طمع فأهدى إليه بعد ذلك فهو حلال لا بأس به۔" وفی المعاملات المالية المعاصرة (ج 1 / ص 62): الهدية في اصطلاح التسويقيين: هي ما يمنحه التجار والباعة للمستهلكين من سلع أو خدمات دون عوض؛ مكافأة، أو تشجيعا، أو تذكيرا.الهدية من حيث الأصل مشروعة مندوب إليها، كما دلت على ذلك نصوص الكتاب، والسنة، وقد نقل غير واحد من أهل العلم الإجماع على ذلك.. أولا: جواز هذا النوع من الهدايا الترغيبية؛ لأن الأصل في المعاملات الحل. ثانيا: يستحب قبول هذا النوع من الهدايا؛ لعموم الأدلة الحاثة على قبول الهدية، ما لم تكن هذه الهدية التذكارية لا تستعمل إلا في محرم، أو يغلب استعمالها فيه، فإنه لا يجوز عند ذلك قبولها۔"

لطف اللہ

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

11/02/1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

لطف اللہ صاحب

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے